Express News:
2025-11-03@00:32:30 GMT

جناب احسن اقبال کو درپیش کئی چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT

تازہ سیلابوں کی تباہ کاریوں نے اجتماعی طور پر پورے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ نقصانات کچھ تو آسماوی آفات کا سبب ہیں اور کچھ ہماری اپنی غلطیوں کا موجب۔ اِنہیں ہم Man Madeبھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور کچھ سیلابی تباہ کاریوں کو بھارتی آبی یلغارکا نام دے کر جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مگر کے پی کے میں جو تباہ کن سیلاب آئے ہیں ، اُنہیں ہم بھارتی آبی جارحیت کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے ۔

یہ آسماوی آفات کا حصہ بھی تھے اور مَین میڈ بھی ۔ خصوصاً پنجاب ، کے پی کے اور سندھ میں ہم سب نے قدرتی آبی گزرگاہوں کے ساتھ جو ظلم کیا ہے ، اس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ ہم مگر کہہ سکتے ہیں کہ ضلع نارووال اور اِس سے متصل تحصیل شکرگڑھ پاکستان کے وہ بدقسمت حصے ہیں جو ہمیشہ قدرتی اور انسانی زیادتیوں کی زَد میں رہتے ہیں ۔ پاک بھارت جنگ ہو توسب سے پہلے گولے نارووال اور شکرگڑھ ہی پر گرتے اور تباہی مچاتے ہیں ۔ہر جنگ اور سیلاب میں زیادہ تر مہاجر بننے والے بھی اِسی خطّے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مون سون میں بھارت دریائے راوی میں اچانک پانی چھوڑ دے تو سب سے پہلے شکرگڑھ اور نارووال ہی میں تباہی ہوتی ہے ۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں سے منتخب ہونے والے ایم این ایزاور ایم پی ایز کو ہمہ دَم کوئی نہ کوئی نئی اُفتاد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چونکہ آجکل یہاں کے ممتاز سیاستدان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال ہیں ، اس لیے نارووال، اس سے متصل حلقوں اور شکرگڑھ میں نئے تباہ کن سیلابوں نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی کے سامنے کئی چیلنج کھڑے کر دیئے ہیں ۔ سیلاب سے متاثر ہونے والے اُن کے حلقے کے لاکھوں ووٹرز آسوں اور اُمیدوں سے اُنہی کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔

ضلع نارووال اور ضلع سیالکوٹ میں نون لیگ کے تین معروف وفاقی وزرا ہیں :وفاقی وزیر دفاع جناب خواجہ محمد آصف، وفاقی وزیر نیشنل فُوڈ سیکیورٹی جناب رانا تنویر حسین اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال۔ تینوں مذکورہ وفاقی وزرا کے حلقے سیلابی پانیوں نے برباد کر ڈالے ہیں ۔ خاص طور پر سڑکوںاور دھان کی کھڑی فصلوں کا ستیا ناس ہو گیا ہے۔ خصوصاً جناب احسن اقبال کا حلقہ ، نارووال، زیادہ متاثر ہُوا ہے۔ احسن اقبال صاحب نے ضلع نارووال شہر میں میڈیکل ، ٹیکنیکل اور تعلیم کے شعبوں میں جو تاریخ ساز خدمات اور کارنامے انجام دیئے ہیں ، اِن سے ضلع نارووال کی موجودہ اور آنے والی نسلیں سنور گئی ہیں ۔مگر نئے سیلابوں نے ضلع نارووال اور اِس سے متصلہ تحصیل شکرگڑھ میں (جہاں نون لیگ ہی کا ایم این اے ہے) سیلابی پانیوں نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے ۔ یوں احسن اقبال اور اُن کے ایم پی اے صاحبزادے (احمد اقبال صاحب) کے سامنے چیلنج ہی چیلنج ہیں ۔

اِن چیلنجوں سے نمٹنے اور متاثرہ ووٹروں کی توقعات پر پورا اُترنے کیلیے اربوں روپے کے فنڈز درکار ہوں گے۔ نارووال شہر سے پسرور ، پسرور سے سیالکوٹ اور سیالکوٹ سے ظفر وال جانے والی سڑکیں اور اِن پر موجود کئی پُل سیلاب کی لہریں اپنے ساتھ بہا لے گئی ہیں ۔ اگر اِن کی تعمیر نَو کے لیے خواجہ آصف صاحب اور احسن اقبال صاحب نے فوری طور پر ہاتھوں میں ہاتھ دے کر تعاون نہ کیا تو بہت سے شکوے سامنے آئیں گے ۔

 وفاقی وزیر منصوبہ بندی ، جناب احسن اقبال، کے سیاسی و انتخابی حلقے میں دربار صاحب کرتارپور بھی آتا ہے ۔ سکھوں کے تین مقدس ترین مقامات میں کرتار پور صاحب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ 42ایکڑ رقبے پر مشتمل وسیع اراضی پر تعمیر کردہ یہ انتہائی خوبصورت کمپلیکس منہ زور سیلاب اور سرکش آبی موجوں کی زد میں آگیا ۔ دریائے راوی کنارے ایستادہ ضلع نارووال میں موجود دربار صاحب کرتار پور اور یہاں سے چند کلومیٹر دُور واقع بھارتی سرحد تک جاتا کرتار پور کوریڈربھی سیلابی پانیوں میں ڈوبا رہا ۔ سیلاب آیا تو کئی سکھ یاتری اور دربار صاحب کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کے کئی ارکان دس ، دس فٹ پانی میں محصور ہو گئے تھے ۔ اُنہیں ریسکیو کرنا سہل نہیں تھا لیکن پاک فوج کے جوانوں ، مقامی دیہاتیوں اور پولیس نے رَل مل کر اور اپنی جانوں پر کھیل کر اِن محصورین کو باہر نکالا اور کیمپوں میں رکھا ۔ احسن اقبال صاحب نے خود بھی دربار صاحب کا دَورہ کر کے بنفسِ نفیس نقصان کا جائزہ لیا ہے ۔

دربار صاحب کرتار پور کمپلیکس اور کرتار پور کوریڈور کو سیلابی پانیوں نے خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ اب اگرچہ پانی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ چکا ہے ، مگر اپنے پیچھے گارے مٹّی کی تہیں چھوڑ گیا ہے ۔اِن سب کی صفائی اور دربار صاحب کی تزئینِ نَو اور کرتار پور کوریڈور کے کئی نقصان زدہ حصوں کی تعمیر نَو پر زرِ کثیر خرچ ہوگا ۔ جناب احسن اقبال کی مرکزی حکومت اورمحترمہ مریم نواز شریف کی پنجاب حکومت کواِس کی صفائی، تزئین و آرائش اور مرمت میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

دربار صاحب کے چاروں اطراف میں زرخیز زرعی علاقہ ہے  اور یہ علاقہ دھان کی فصلوں کے لیے مشہور ہے۔ یہ ایک پوری پٹّی ہے جو نارووال سے لے کو شکرگڑھ تک اور پھر وہاں سے دریائے راوی کے دائیں کنارے پر واقع پورا ضلع نارووال ، نارنگ منڈی تا گوجرانوالہ، ساری زرعی زمین دھان کی فصل کیلیے عالمی شہرت رکھتی ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے خوشبودار اور منفرد نوعیت کے حامل باسمتی چاولوں نے دُنیا میں اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں ۔

لیکن اب ضلع نارووال ، تحصیل شکرگڑھ ، نارنگ منڈی اور گوجرانوالہ کے زرعی علاقے کو سیلابوں نے خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ سڑکیں تو تباہ ہُوئی ہی ہیں ، دھان ، گنے اور چارے کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ شائد اِس بار پاکستان اپنا بہترین چاول عالمی منڈی میں نہ بھجوا سکے اور یوں پاکستان کی چاولوں کی ایکسپورٹ میں 4ارب ڈالرز نقصان کا اندیشہ ہے۔ نارووال کے کسانوں کو بڑا نقصان اُٹھانا پڑا ہے ۔ اور یہ سب بیچارے کسان حکومت کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

احسن اقبال صاحب طاقتور وفاقی وزیر ہیں ۔ وزیر اعظم صاحب کے معتمدِ خاص بھی ہیں۔ اُن کے حلقے کے نقصان زدہ کسانوں کو بھرپور اُمید ہے کہ جب احسن اقبال صاحب وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز شریف، کو اُن کے مالی نقصانات بارے بریف کریں گے تو وفاقی اور صوبائی حکومتیںاُن کی فوری دستگیری کیلیے ہاتھ ضرور آگے بڑھائیں گی ۔ اور یوں ہم دیکھتے ہیں کہ احسن اقبال کے سامنے سیلابوں نے کئی چیلنج کھڑے کر دیئے ہیں۔ اِس سیلابی نقصان کا صحیح تخمینہ ہمارے پاس تو ابھی نہیں ہے ، مگر چونکہ احسن صاحب وزیر منصوبہ بندی ہیں ، اسلیے ہم اُمید رکھتے ہیں کہ اُن کے حلقے کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان میں ہونے والے سیلابی نقصان کا درست ترین ڈیٹا اُن کے پاس آ چکا ہوگا ۔

جناب احسن اقبال حال ہی میں تیانجن ( چین) میںSCOکے اہم ترین اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ شریک تھے ۔ یہ ایک اور بڑا اعزاز ہے۔ اُنہیں حال ہی میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے نشانِ امتیاز بھی عطا کیا گیا ہے ۔ یہ ایوارڈ اُن کی شاندار قومی خدمات کا اعتراف ہے ۔ اِس کے علاوہ بھی اُنہیں کئی بیرونی حکومتوں کی جانب سے کئی اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے ۔

اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مستحسن شہرتوں کے حامل پروفیسر احسن اقبال کا انتخابی و سیاسی حلقہ سیلاب میں ڈُوبا تو وزیر اعظم جناب شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے ضلع نارووال کا دَورئہ خصوصی کیا تاکہ بذاتِ خود نقصانات کا چشم دید احوال جان سکیں ۔ نارووال شہر میں اُنہیں احسن اقبال صاحب نے سیلاب اور سیلاب زدگان بارے بریف بھی کیا ۔ ضلع نارووال ، تحصیل شکرگڑھ ، نارنگ منڈی اور گوجرانوالہ تک کے لاکھوں سیلاب زدگان اُمید رکھتے ہیں کہ جناب احسن اقبال کے توسط سے اُن کے لا متناہی نقصانات کا کچھ تو ازالہ کیا جائیگا ۔ اُمید رکھنی چاہیے کہ احسن اقبال صاحب کے ایم پی اے صاحبزادے ، احمد اقبال صاحب ، بھی اپنی وزیر اعلیٰ صاحبہ کو نارووال اور ظفر وال کے سیلاب زدگان کے نقصانات کا فوری ازالہ کرنے کیلیے درخواست کریں گے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال صاحب نے جناب احسن اقبال سیلابی پانیوں تحصیل شکرگڑھ نارووال اور ضلع نارووال سیلابوں نے ہونے والے کرتار پور نقصان کا سیلاب ا کے حلقے ا نہیں ہیں کہ

پڑھیں:

خرابات فرنگ

تقریباً دو ہفتے پہلے ‘ علامہ عاصم صاحب کا فون آیا۔ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق صاحب نے گھر پر ایک ادبی محفل رکھی ہے اور آپ نے ضرور آنا ہے۔ برادرم عاصم‘ بذات خود ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں تو خیر وہ ہیں ہی۔ مگر‘ ایک حد درجہ مخلص‘ مہذب اور مرنجان مرنج انسان بھی ہیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ طالب علم‘ ڈاکٹر وحید الزماں کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ خیر تھوڑی دیر بعد‘ ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا۔ بتانے لگے کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ہیں۔ معلوم پڑا کہ میرے سے چار سال سینئر تھے۔

فدوی بھی اسی علمی درسگاہ سے فیض یاب ہوا ہے۔ بہر حال برف پگھلنی شروع ہو گئی۔ مختص دن اور شام کو ان کے گھر پہنچا۔ تو بیسمنٹ میں دوست جمع ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے تعارف ہوا۔ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو ہیں‘مگر فارسی میں بھی پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

لاہور کی قدآور ادبی شخصیات موجود تھیں۔ اوریا مقبول جان جو میرے دیرینہ رفیق ہیں، اپنے مخصوص انداز میں چہک رہے تھے ۔ اوریا کے سیاسی خیالات اپنی جگہ۔ مگر‘ ادب پر اس کی کمال گرفت ہے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ تھوڑی دیر میں ‘ محترم مجیب الرحمن شامی بھی آ گئے۔ ان کی باتوں کی شائستگی ‘ محفل کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ چار گھنٹے ہر زاویہ سے باتیں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے صاحب قلم اور صاحبان علم کا ایک ایسا گلدستہ اکٹھا کیا ہوا تھا جن کی دل آویز خوشبو ‘ ہمیشہ اپنا احساس دلاتی رہے گی۔

ڈاکٹر صاحب‘ فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔میری پسندیدہ ترین شخصیت‘ علامہ اقبال کے کام پر گہری نظر ہے۔ ڈاکٹر وحیدالزماں جو فوج کے میڈیکل کے شعبہ سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر بھی ہیں۔ انھوں نے کمال محبت سے اپنی ایک کتاب کی دو جلدیں عنایت فرمائیں۔ یہ ان کی لندن کے قیام کے قصے تھے۔ نام تھا خرابات فرنگ۔ اس جمعہ اور ہفتہ کو قدرے فرصت تھی ۔

لہٰذا دونوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ بہت عمدہ کتابیں نکلیں۔ محترم الطاف حسن قریشی‘ اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں۔کتاب کا اسلوب بیانیہ ہونے کے باوجود اتنا دلکش اور مؤثر ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود ہائیڈپارک کارنر کی بینچ پر بیٹھا ہو یا برٹش میوزیم کی راہداریوں میں گم ہو چکا ہو‘‘۔ مادام تساؤ کا میوزیم‘‘ ہویاٹر افالگر اسکوائر ‘وکٹوریہ گارڈن ہو یا نیشنل گیلری ‘ ہر مقام کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے کہ صرف جگہیں ہی نہیں بلکہ ان سے جڑے ثقافتی اور فکری پہلو بھی روشن ہو جاتے ہیں۔کتاب کا نام ’’خرابات فرہنگ‘‘ خود ایک استعارہ ہے۔ ’’خرابات‘‘ یعنی وہ جگہ جہاں روح شکست کھا جائے‘ جہاں دل کو قرار نہ آئے۔ اور ’’فرنگ‘‘ یعنی مغرب‘ جہاں تہذیب ہے‘ ترقی ہے‘ لیکن روحانیت گم ہے۔

 شامی صاحب رقم طراز ہیں کہ طارق کا لاحقہ انھوںنے خود لگایا یا تخلص رکھ لیا‘ معنویت میںاضافہ ہو گیا۔ وحید الزماں طارق طب کے ڈاکٹر ہیں اور ادب کے بھی۔ میڈیکل میں کمال حاصل کیا‘ تو ادب کی طرف رجوع کر لیا۔ اقبال کے کلام سے ناتہ جوڑا تو اس کے شارح اور مفسر بن گئے۔ ایک عالم کو گرویدہ بنا لیا۔ اقبال کا فارسی کلام فارسی سے نابلد لوگوں کو سمجھا دیا۔

اب کچھ کتاب سے لیے ہوئے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔قطبین میں سے ایک قطب کا انتخاب: مغرب میں اہل ایمان کی تذبذب کی کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں لوگ اپنی پارسائی کا بھرم رکھ کر چھپ چھپا کر گناہ کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ انسان اپنی حرکات و سکنات سے اپنی شناخت کا تعین کرتا ہے۔ یا تو وہ صحیح مومن بن جاتا ہے یا پھر مغرب کی چکا چوند روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ کی تربیت صحیح ہوئی ہو تو انسان ان خرافات سے دور بھاگتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دقیانوسیت سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :

بہ افرنگی بتان دل باختم من

ز تابِ دیریان بگدا ختم من

 دیار فرنگ میںاپنے تقویٰ اور پرہیز گاری کو قائم رکھنا مشکل تو تھا لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارا انگلستان میں حال کچھ یوں تھا کہ بقول علامہ اقبال:

عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں

کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل

انگریز معاشرے کے مسائل اور خوبیاں: انگریز معاشرے کے اپنے مسائل تھے اور خوبیاں بھی تھیں جو سامنے آ جاتی تھیں۔ انگریزقوم کے افراد کسی حد تک آگے بڑھتے اور پھر وہیں رک جاتے تھے۔ اور اسے مغربی تہذیب کا نام دیتے جس کی جھلکیاں ان کی مصوری‘ موسیقی اور ڈراموں میں دکھائی دیتی تھیں۔ وہی حال ان کے تجارتی اشتہارات کا تھاجن سے ان کی زیر زمین ریل گاڑیاں اور ڈبل ڈیکر بسیں تک مزین ہوا کرتی تھیں ایسی تصاویر اور آرٹ بچوں کے کچے ذہنوں پر اثر انداز ہوا کرتے تھے۔

پاکستان کے تارکین وطن کی برطانیہ میں پیدا ہو کر پرورش پانے والی نسل کو یہ سب کچھ نارمل دکھائی دیتا تھا اور وہ اس اخلاقی نظام پہ انگلیاں اٹھاتے تھے جس کی تلقین ان کے قدامت پسند بزرگ کیا کرتے تھے۔ پھر اگر انھیں پاکستان یا اسلامی معاشرے میں کچھ دیر کے لیے وقت گزرانا پڑتا تو انھیں وہاں پر اگر انھیں منافقت یا مصلحت اندیش خاموشی نظر آتی تو وہ ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے تھے جن کا جواب دینے سے ہمارے اکثر بڑے قاصر ہوتے تھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کہتے کچھ ہیں اور ہمارا عمل کچھ اور ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم پردہ پوشی سے کام لیتے ہیں۔

انگلستان سے ٹوٹتا ہوا تعلق: ہم 2018 میں عمان ایئرکے ذریعے ابو ظہبی سے مسقط اور وہاں سے مانچسٹر پہنچے۔ یارکشائر‘ گلاسگواسکاٹ لینڈ‘ لندن‘ اسٹیو ینیج‘ کیمبریج اور پھر مانچسٹر ‘ ہر سو اداسی تھی۔ اس بار خالہ بلقیس ‘ بھائی جان امان اللہ اور آنٹی نجمہ واحد سے ہم آخری بار ملے تھے۔ عید پر گلاسگو گئے تو ابھی بشیر مان صاحب بھی زندہ تھے لیکن سخت بیمار تھے۔ انھیں ایک پھیپھڑے میں سرطان ہو چکا تھا اور ان سے ہم آخری بار 2016 میں ان کے اپارٹمنٹ میں ملے تھے۔

اب وہ سب لوگ اس دنیا میں نہیں رہے۔پروفیسر لانگسن تو 1989 میں ہی وہا ں سے نکل مکانی کر گئے تھے۔ وہ بھی سویٹزر لینڈ میں جا کر جنیوا جھیل کے کنارے مدفون ہیں۔ مسز ڈینس لانگسن سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ بنات ولا اور شرلی رچمنڈ کا کچھ علم نہیں۔ ماؤراٹمبوری وفات پا چکی ہیں۔ رولف اور جیکی فروری 1988 میں ہی وہاںسے ہل چلے گئے تھے۔ جیرالڈ کاربٹ اور اس کی بیگم وفات پا چکے تھے۔ ڈاکٹر شرلی رچمنڈ بھی نہیں رہیں۔ جو باقی ہیں ان سے بھی ملاقات مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

آخرمیں ڈاکٹر وحید الزماں نے جو کچھ‘ اس کتاب کے متعلق لکھا ہے۔ عرض کرتا ہوں۔کمبل پوش نے ’’عجائبات فرنگ‘‘ تصنیف کی تھی‘ وردی پوش نے ’’خرابات فرنگ‘‘ رقم کی ہے۔ بریگیڈیئر وحیدالزماں طارق صاحب کی یہ تصنیف لطیف سفر نامہ بھی ہے اور حضر نامہ بھی ۔ انھوںنے جوانی میں انگلستان کی شان دیکھی تھی‘ وقت پیری انھیں یہ خیال آیا کہ دیکھا ہے جو کچھ میں نے‘ اوروں کو بھی دکھلا دوں۔ سو کتاب کے نام کی مناسبت سے انھوںنے ہمیں خرابات کی سیر تو کرائی ہے لیکن نام کے برعکس بھی بہت سے دل کش مقامات دکھائے ہیں۔ اس تصنیف میں سیر مقامات بھی ہے اور احوال حیات بھی۔ یہاں انھوںنے ہماری ملاقات ایک ایسے پاک دل و پاک باز شخص سے کرائی ہے جس پر اقبال کا یہ مصرع صادق آتا ہے: بے داغ ہے مانند ِ سحر اس کی جوانی۔ یہ شخص وحیدالزماں طارق ہے جو خود تو رنگین مزاج نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب تحریر بہت رنگین ہے۔

بہر حال ‘ وحید صاحب نے انگلستان میں اپنی یادوں کو حد درجہ دلکش انداز میں محفوظ کیا ہے۔ یہ دونوں جلدیں ‘ واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نارروال: وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال آر ایل این جی کنکشز کا افتتاح کررہے ہیں
  • خرابات فرنگ
  • گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
  • سی پیک فیز ٹو کا آغاز ہو چکا، چین نے کبھی کسی دوسرے ملک سے تعلق نہ رکھنے کی شرط نہیں لگائی، احسن اقبال
  • 2 جماعتوں نے بذریعہ سوشل میڈیا نفرت انگیز بیانیہ بنایا: احسن اقبال
  • معاشی بہتری کیلئے کردار ادا نہ کیا تو یہ فورسز کی قربانیوں کیساتھ زیادتی ہوگی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال
  • حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
  • بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں، ہمیں مل کر ٹیکس چوری کے خلاف لڑنا ہوگا، احسن اقبال
  • نارووال،خانہ بدوش بچہ کچرے کے ڈھیر سے کام کی اشیا تلاش کررہاہے
  • سہیل آفریدی اپنے بیانات میں ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں، خواجہ آصف