انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی آگئی
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
کراچی:
انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں مسلسل 21 ویں روز بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق عالمی مارکیٹ میں مسلسل تیسرے روز بھی خام تیل کی قیمت میں کمی کے رحجان سے درآمدی بل میں ممکنہ کمی، سیلاب کی تباہ کاریوں سے افراط زر کی شرح بڑھنے اور شرح سود میں غیر متوقع طور پر اگلے دو سہ ماہیوں میں کمی نہ ہونے کے خدشات کے باعث زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں جمعے کو 21ویں روز بھی ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا رہا۔
پاکستان اور چین کے درمیان ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے سرمایہ کاری معاہدوں، سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی آمد میں اضافے کی امیدوں اور اچھے معاشی اشاریوں کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے بیشتر دورانیے میں ڈالر کی قدر تنزلی سے دوچار رہی۔
انٹربینک مارکیٹ میں ایک موقع پر ڈالر کی قدر 16 پیسے کی کمی سے 281 روپے 50پیسے کی سطح پر آگئی تھی لیکن اختتامی لمحات سے قبل معیشت اچانک طلب بڑھنے سے ایک موقع ڈالر کی قدر9 پیسے کے اضافے سے 281روپے 75پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی۔
کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قدر ایک پیسے کی کمی سے 281روپے 65پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔
اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر مزید 10 پیسے کی کمی سے 283 روپے 10 پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیسے کی سطح پر ڈالر کی قدر مارکیٹ میں
پڑھیں:
بٹ کوائن کی گراوٹ نے 7 سالہ ریکارڈ توڑ دیا، سرمایہ کار خوفزدہ
دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن سات سال کے بعد پہلی بار اکتوبر میں خسارے کا شکار رہی۔ 2018 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اکتوبر، جو عموماً بٹ کوائن کے لیے ”خوش قسمت مہینہ“ سمجھا جاتا تھا، منفی ثابت ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق بٹ کوائن کی قیمت اس ماہ تقریباً 5 فیصد کم ہوئی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں عالمی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال اور سرمایہ کاروں کی جانب سے خطرے سے گریز نے کرپٹو کرنسی مارکیٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔
ڈیجیٹل مارکیٹ کے ریسرچ تجزیہ کار ایڈم مک کارتھی نے ”رائٹرز“ سے گفتگو میں کہا کہ ”اکتوبر کے آغاز میں کرپٹو مارکیٹ سونا اور اسٹاکس کے ساتھ اوپر جا رہی تھی، مگر جیسے ہی غیر یقینی صورتحال بڑھی، لوگ دوبارہ بٹ کوائن کی طرف واپس نہیں آئے۔“
اکتوبر کے وسط میں بٹ کوائن مارکیٹ کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمدات پر 100 فیصد ٹیکس عائد کرنے اور حساس سافٹ ویئر پر ایکسپورٹ پابندیوں کی دھمکی دی۔ اس اعلان کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی کرپٹو منڈیوں کی لیکویڈیشن (فروخت) ہوئی۔
بٹ کوائن کی قیمت 10 اور 11 اکتوبر کے درمیان تیزی سے گر کر 104,782 ڈالر تک آگئی، جبکہ چند دن پہلے ہی اس نے 126,000 ڈالر کی بلند ترین سطح کو چھوا تھا۔
ایڈم مک کارتھی کے مطابق، ”10 اکتوبر کا حادثہ سرمایہ کاروں کو یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ یہ مارکیٹ بہت محدود ہے۔ یہاں بٹ کوائن اور ایتھیریم جیسے بڑے سکے بھی 15 سے 20 منٹ میں 10 فیصد گر سکتے ہیں۔“
اکتوبر کے اختتام پر بھی سرمایہ کار ابہام کا شکار ہیں کیونکہ امریکی فیڈرل ریزرو نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس سال مزید شرحِ سود میں کمی نہیں کرے گا، جب کہ امریکی حکومت کے جزوی شٹ ڈاؤن کے باعث اہم معاشی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
دوسری جانب جے پی مورگن کے سی ای او جیمی ڈائمن نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگلے چھ ماہ سے دو سال کے دوران امریکی اسٹاک مارکیٹ میں ایک بڑی گراوٹ یا کرکشن آسکتی ہے۔
ٹریڈنگ کمپنی ونٹرمیوٹ کے سربراہ جیک اوستروفسکیس کے مطابق، ”اکتوبر میں ریکارڈ توڑ فروخت کے بعد سرمایہ کار ابھی بھی محتاط ہیں۔ وہ نظام میں ممکنہ کمزوریوں پر غور کر رہے ہیں جو ابھی تک ختم نہیں ہوئیں۔“
اگرچہ بٹ کوائن نے اکتوبر میں کمی کا سامنا کیا، مگر مجموعی طور پر یہ کرنسی سال 2025 کے آغاز سے اب تک 16 فیصد منافع میں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی کرپٹو کرنسیوں کے لیے نرم پالیسیوں، جیسے بڑی کرپٹو کمپنیوں کے خلاف مقدمات کا خاتمہ اور مالیاتی اداروں کے لیے خصوصی ضوابط نے مجموعی طور پر اس سال ڈیجیٹل کرنسیوں کے لیے مثبت ماحول فراہم کیا ہے۔
تاہم، اکتوبر کا اتار چڑھاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کرپٹو مارکیٹ اب بھی غیر یقینی سیاسی اور معاشی فیصلوں کے رحم و کرم پر ہے۔