7 ممالک جہاں آئی فون 17 کی قیمت پوری دنیا سے کم ہے
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
ایپل کا نیا فلیگ شپ اسمارٹ فون آئی فون 17 دنیا بھر میں لانچ ہوگیا ہے، لیکن اس کی قیمت ہر ملک میں یکساں نہیں۔ بعض ممالک میں یہ فون خاصا سستا ہے جبکہ کچھ میں اس کی قیمت خریداروں کی جیب پر بھاری پڑ سکتی ہے۔
اگر آپ نیا فون خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ جاننا فائدہ مند ہوگا کہ کہاں سے خریدنا سب سے بہتر رہے گا۔
یہ ہیں وہ 7 ممالک جہاں آئی فون 17 (256 جی بی بیس ماڈل) سب سے سستا ہے اور وہ جگہ جہاں یہ سب سے مہنگا ہے:
امریکا
قیمت: 799 ڈالر
دنیا بھر میں سب سے سستی قیمت۔ لیکن یہ ماڈل صرف eSIM سپورٹ کرتا ہے، اس لیے اگر آپ فزیکل سم کارڈ استعمال کرتے ہیں تو یہ مسئلہ بن سکتا ہے۔
کینیڈا
قیمت: 1,129 کینیڈین ڈالر
امریکہ کے قریب ترین قیمت اور ساتھ ہی فزیکل سم کا آپشن بھی موجود ہے۔ اگر اس کو امریکی ڈالر کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ قیمت 816 امریکی ڈالر بنتی ہے۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای)
قیمت: 3,099 درہم
کم ٹیکس کی وجہ سے دبئی اور ابوظہبی بھارتی خریداروں میں ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں۔ یہاں آئی فون 843 امریکی ڈالر کے برابر فروخت ہورہا ہے۔
چین
قیمت: 5,999 یوآن
چین میں قیمت بھارت سے کم ہے، اگرچہ امریکا اور کینیڈا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس قیمت کو امریکی ڈالر کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ 842 ڈالر بنتی ہے۔
جاپان
قیمت: 129,800 ین
یو اے ای سے کچھ زیادہ لیکن بھارت کے مقابلے میں اب بھی کافی سستا۔ یہاں آئی فون 879 امریکی ڈالر کے برابر میں فروخت ہورہا ہے۔
آسٹریلیا
قیمت: 1,399 آسٹریلین ڈالر
بھارت کے برابر کے قریب، البتہ ٹورسٹ ریفنڈ اسکیم کے تحت ٹیکس ریفنڈ کی سہولت فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ اگر امریکی ڈالر کی عینک سے دیکھا جائے تو یہاں 932 امریکی ڈالر کے برابر قیمت میں فروخت ہورہا ہے۔
برطانیہ (سب سے مہنگا)
قیمت: 949 برطانوی پاؤنڈ
یہ فہرست میں سب سے مہنگا ملک ہے جہاں آئی فون 17 کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔ یہ 1291 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی فون 17 ٹیکنالوجی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی فون 17 ٹیکنالوجی امریکی ڈالر کے برابر ا ئی فون ئی فون 17 کی قیمت
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔