صہیب بلوچ کی ہلاکت یا گمشدگی، متضاد دعوؤں نے بلوچ تنظیموں کو ہزیمت میں مبتلا کردیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
دہشتگردی میں ملوث صہیب بلوچ عرف امیر بخش سے متعلق بلوچ تنظیموں کے متضاد دعوؤں نے ان تنظیموں کو ایک بار پھر ہزیمت میں مبتلا کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’قلات آپریشن میں مارے گئے دہشتگرد کی شناخت نے لاپتا افراد کے دعوؤں کی حقیقت آشکار کر دی‘
ایک جانب بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے ایک بیان میں اپنے کارکن صہیب بلوچ کی ہلاکت کو ’قربانی‘ قرار دیتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کیا ہے، تو دوسری طرف بلوچ نیشنل موومنٹ (BNM) اور دیگر حلقوں نے صہیب بلوچ کی گمشدگی اور اس کے بعد کے حالات پر تشویش ظاہر کی ہے۔
ماہرنگ بلوچ کے ساتھ تعلقاتصہیب بلوچ کو ایک تصویر میں وہ سماجی کارکن ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کے ساتھ کھڑا دیکھا جا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی جب پولیس نے صہیب بلوچ کو گرفتار کیا تھا تو ماہرنگ بلوچ نے اس کی رہائی کے لیے بھرپور احتجاج کیا تھا۔
اس احتجاج کے دوران ان کا کہنا تھا کہ جب تک صہیب بلوچ کو رہا نہیں کیا جاتا، وہ مظاہرہ ختم نہیں کریں گی۔
متضاد بیاناتایک جانب BLA اسے اپنی قربانی قرار دے رہی ہے، دوسری جانب BNM اور کچھ سوشلسٹ پلیٹ فارمز اس کے لاپتا ہونے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:بلوچستان میں پنجابی مسافر قتل، بھارتی فنڈنگ، ماہرنگ بلوچ بے نقاب، بڑے ایکشن کی تیاری
واضح رہے کہ بلوچستان میں مسلح تنظیموں کی کارروائیوں اور کارکنوں کی گمشدگی کے معاملات طویل عرصے سے انسانی حقوق کے حلقوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
صہیب بلوچ کے معاملے نے ایک بار پھر ان متضاد دعوؤں کو اجاگر کر دیا ہے جو مختلف گروہ اپنے سیاسی و عسکری بیانیے کے تحت کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امیر بخش بلوچ تنظیمیں بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچستان بی ایل اے صہیب بلوچ ماہرنگ بلوچ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچ تنظیمیں بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچستان بی ایل اے صہیب بلوچ ماہرنگ بلوچ ماہرنگ بلوچ صہیب بلوچ
پڑھیں:
تنزانیہ میں انتخابی دھاندلی کے الزامات، 3 دن میں 700 افراد کی ہلاکت کا خدشہ
تنزانیہ میں انتخابات کے بعد پچھلے تین روز کے دوران پرتشدد مظاہروں میں تقریباً 700 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعت چاڈیما کے مطابق دارالسلام اور دیگر شہروں میں احتجاج جاری ہے جبکہ ملک میں انٹرنیٹ بند اور کرفیو نافذ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جرمن صدر نے افریقی ملک تنزانیہ سے معافی کیوں مانگی؟
صدر سامیا سُلحُو حسن نے بدھ کے الیکشن میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی، تاہم مخالفین کی گرفتاریوں اور انتخابی بے ضابطگیوں کے باعث صورتحال بگڑ گئی۔
#Tanzania: We are alarmed by the deaths & injuries in the ongoing election-related protests, as the security forces used firearms and teargas to disperse protesters.
We call on the security forces to refrain from using unnecessary or disproportionate force, including lethal… pic.twitter.com/o0hDBRo87d
— UN Human Rights (@UNHumanRights) October 31, 2025
میڈیا رپورٹس کے مطابق، غیر ملکی صحافیوں پر پابندی کے باعث درست معلومات حاصل کرنا مشکل ہے۔
چاڈیما کے ترجمان کے مطابق دارالسلام میں تقریباً 350، موانزا میں 200 سے زائد اور دیگر علاقوں سمیت مجموعی طور پر 700 کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں، جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: درآمدی شعبے میں ایک اور سنگ میل عبور، پاکستانی ٹریکٹرز تنزانیہ پہنچ گئے
اقوامِ متحدہ نے 10 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کم از کم 100 افراد مارے گئے ہیں۔ فوجی سربراہ نے مظاہرین کو ’جرائم پیشہ‘ قرار دیا ہے۔
زنجبار میں حکمران جماعت چاما چا مپندو کو فاتح قرار دیا گیا، لیکن حزبِ اختلاف نے نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ 1995 سے اب تک ملک میں کوئی انتخاب شفاف نہیں ہوا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر حسن کو فوج کے بعض حلقوں اور سابق صدر جان ماغوفولی کے حامیوں کی مخالفت کا سامنا ہے، ان پر اقتدار مضبوط کرنے اور مخالفین کو کچلنے کے الزامات ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکشن انٹرنیٹ ایمنسٹی انٹرنیشنل تشدد تنزانیہ جرائم پیشہ زنجبار شفاف انتخاب صدر حسن کرفیو