یومِ دفاع: وفاقی دارالحکومت میں 31 توپوں کی سلامی؛ مزارِ قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
یومِ دفاع: وفاقی دارالحکومت میں 31 توپوں کی سلامی؛ مزارِ قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب WhatsAppFacebookTwitter 0 6 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:یومِ دفاع و شہدا پاکستان بھر میں آج نہایت ملی و قومی جذبے اور وقار کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔
کراچی میں مزارِ قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں ایئر آفیسر کمانڈنگ ایئر وائس مارشل شہریار خان مہمان خصوصی تھے۔ پاکستان ایئر فورس اکیڈمی اصغر خان کے دستے نے گارڈز کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
شہریار خان نے بابائے قوم کے مزار پر پھول رکھے، فاتحہ خوانی کی اور مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کرتے ہوئے کہا کہ پاک فضائیہ نے ہمیشہ عوام کو اعتماد دیا اور دشمن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
صدر اور وزیراعظم کے پیغامات
دریں اثنا یومِ دفاع کے موقع پر صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے قوم کے نام اپنے خصوصی پیغامات جاری کیے۔ صدر مملکت نے اس دن کو بہادر مسلح افواج کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ 6 ستمبر کو ہونے والا معرکۂ حق اس سال نئی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ پاک فوج نے ایک مرتبہ پھر اپنی جانفشانی اور جرات کے ذریعے دشمن کو واضح پیغام دیا کہ وطن کا دفاع ہر قیمت پر کیا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 6 ستمبر قومی تاریخ میں بہادری اور اتحاد کی روشن علامت ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 60 برس قبل افواجِ پاکستان نے دشمن کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنایا، جبکہ حالیہ معرکۂ حق میں بھی افواج اور عوام آہنی دیوار کی طرح متحد کھڑے ہوئے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت اور تذویراتی وژن نے دشمن کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارتی آبی جارحیت جاری؛ دریائے ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب، چناب اور راوی کی بھی سطح بلند سیلاب متاثرین کیلئے امریکا کی جانب سے امدادی سامان پاکستان پہنچ گیا ڈریپ، ڈائریکٹوریٹ کوالٹی کنٹرول اور ایف آئی اے کراچی کا جوائنٹ آپریشن، بڑی تعداد میں نان رجسٹرڈ اور جعلی ادویات پکڑائی گئیں، تفصیلات و... ملک میں سیلابی صورتحال، وفاقی حکومت کا اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی مانیٹرنگ کا فیصلہ علیمہ خانم پر انڈا پھینکنے کا واقعہ، پی ٹی آئی نے اندراج مقدمہ کیلئے تھانے میں درخواست دیدی پنجاب حکومت کا گرانٹ اِن ایڈ پالیسی 2025کا اعلان، مریم اورنگزیب سربراہ نامزد جسٹس منصورکا چیف جسٹس کو خط ، 26ویں ترمیم پر فل کورٹ نہ بنانے سمیت چھ سوالات کے جوابات مانگ لیے
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: گارڈز کی
پڑھیں:
ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔