چھتری: کبھی طاقت کی علامت، آج ہر کسی کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
رستے میں جب بارش ہوئی
تیری یاد آئی، بہت آئی
یہ شعر پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا ہو گا کہ ہم آپ کی کسی جان سے پیاری شخصیت کی بات کر رہے ہیں، مگر ایسی بات بالکل نہیں ہے، یہ ذکر ہے ایک ایسی چیز کا، جو اکثر ہمارے بہت کام آتی ہے، ہمیں کئی چیزوں سے بھی بچاتی ہیں۔
زیادہ حیران نہ ہوں، ہم آپ کی بے چینی ختم کیے دیتے ہیں، یہ بات ہو رہی ہے چھتری کی۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ موسم کے بدلتے تیور میں یہ خوب ساتھ نبھاتی ہے، مگر سال کے زیادہ دن سب کی نظروں سے اوجھل ہی رہتی ہے، اسے یہ ہی انتظار ہوتا ہے کہ کب کسی کو اس کی یاد آئے، جیسے ہی بادل برستے، چھتری کی قسمت بھی چمک جاتی ہے، اس کی گرد صاف ہوتی ہے اور کسی شہزادی کی طرح اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔
گئے وقتوں میں ہر کسی کی اس تک رسائی نہیں تھی، چھتریاں مہنگی اور نایاب تھیں۔ ماضی میں چھتری، بادشاہوں کے جاہ و جلال کو ظاہر کرتی تھی، یعنی جتنی زیادہ دولت اتنی بڑی چھتری، ایک طویل عرصہ خواتین ہی اس کا زیادہ استعمال کرتی تھیں، یہی وجہ تھی کہ عام لوگ نہیں، صرف اونچے طبقے کے لوگ ہی اسے استعمال کر پاتے تھے۔
چھتری کیسے وجود میں آئی؟آیئے تاریخ کو کھنگھالتے ہیں۔ یوں تو چھتریوں کی دنیا صدیوں سے آباد ہے مگر یہ وجود میں کیسی آئی، اس سے متعلق مختلف باتیں مشہور ہیں۔
قدیم مصری تہذیب میں بھی ہمیں چھتری کا وجود ملتا ہے، فرعون اور امرا دھوپ سے بچاؤ اور شان و شوکت کے طور پر بڑی چھتریاں استعمال کرتے تھے، قدیم عبادت گاہوں کی دیواروں پر آج بھی یہ تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔
تہہ ہونے والی چھتری کی ابتدا ہمیں چین میں چوتھی صدی قبل مسیح کے آس پاس نظر آتی ہے، ابتدا میں چھتری بنانے کے لیے درخت کے پتے، شاخیں اور کاغذ کا استعمال کیا جاتا تھا، وقت بدلا تو کپڑا ، نائلون اور پولیسٹر نے اس کی جگہ لے لی۔
ابتدا میں مغرب میں چھتری کو خواتین سے جوڑا گیا، 1708 میں ایک ڈکشنری میں چھتری تعریف کچھ یوں بیان کی گئی، ’ایک آلہ جو عام طور پر عورتیں بارش سے بچنے کے لیے استعمال کرتی ہیں‘۔
پھر روایت بدلی، لندن کے ایک شہری نے 1700 کی دہائی کے وسط میں 30 برس تک روزانہ چھتری استعمال کی، اس کا مذاق اڑایا گیا مگر وہ ڈٹا رہا اور آخر کار مرد بھی چھتری کا استعمال کرنے لگے۔
شروع شروع میں چھتری کی تیاری میں لوہا، لکڑی اور وہیل مچھلی کی ہڈیاں استعمال ہوتی تھیں، 1850 کی دہائی میں اسٹیل نے ان سب اشیا کی جگہ لے لی، جس سے چھتری کا وزن کم ہو گیا اور اسے کہیں لے جانا اور اٹھانا نسبتاً آسان ہوا۔
1928 میں ہانس ہاؤپٹ نامی ایک معذور جنگی سپاہی کو چھتری پکڑنے میں مشکل پیش آتی تھی، تو اس کے ذہن میں ایک نئے ڈیزائن کی چھتری بنانے کا خیال آیا، یوں چھوٹی فولڈ ایبل پاکٹ چھتری وجود میں آئی، سورج کی تیز روشنی ہو یا موسلادھار بارش، آج کل کی چھتریاں ان کے خلاف موثر ہتھیار ہیں۔
آج کل قسم قسم کی چھتریاں بازار میں دستیاب ہیں، ہیٹ ایمبریلاز بھی کئی افراد کی پسند ہیں، بطور ٹوپی استعمال کریں یا چھتری، مرضی آپ کی، اب تو ہینڈ فری چھتریاں بھی ملتی ہیں، ان کا فائدہ یہ ہے کہ انہیں ہاتھ سے پکڑنے کی ضرورت نہیں ہوتیں، یہ آپ کے کندھے کے ساتھ اٹیچ ہوتی ہیں۔ عموماً خواتین اور بچے رنگین چھتریاں پسند کرتے ہیں تو مردوں کو سیاہ یا نیلے رنگ کی چھتریاں بھاتی ہیں۔
یوں تو چھتری کے کئی فائدے ہیں، چھتریاں ہر طبقے کے افراد سے خوب دوستی نبھاتی ہیں۔ ملازم پیشہ افراد اور طلبہ ہی نہیں، چھتریاں ٹھیلے والوں اور مختلف مقامات پر تعینات پولیس اہلکاروں کے کام بھی آتی ہے۔ چھتریوں کی شاپس تو ہوتی ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ سڑک کنارے بھی آپ کو چھتری فروش دکھائی دیتے ہیں۔
اب تو ایسی جدید چھتریاں بھی دستیاب ہیں کہ دیکھتے ہی آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں، ایسی چھتریاں بھی ہیں جو بارش سے بچاتی ہی نہیں، یہ بھی بتاتی ہیں کہ بادل کب برسیں گے۔
نیدرلینڈ کے ماہرین نے تو ایک ایسی بادل نما چھتری بھی بنائی جو ایئر کنڈیشن کا مزہ دیتی ہے۔ اب تو ایسی چھتریاں بھی ہیں، جن کے گم ہو جانے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے، جی پی ایس فیچر کے ذریعے چھتری تلاش کرنا آسان، بہت آسان۔
کچھ چھتریوں میں تو ایل ای ڈی لائٹس اور پنکھے بھی لگے ہوتے ہیں، کچھ چھتریوں میں سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے پینل لگے ہوتے ہیں۔ جو آپ کے موبائل کو بھی چارج کر سکتی ہیں۔
یہ ساری چھتریاں اپنی زیادہ قیمت کی وجہ سے ابھی بہت زیادہ استعمال نہیں کی جاتیں۔ چھتری کا استعمال اردو ادب میں بھی ملتا ہے، کئی کہانیوں اور افسانوں کے نام اس پر ہیں تو شعر و شاعری میں بھی چھتری نے اپنا سایہ کیے رکھا ہے۔
والی آسی کا یہ شعر ہی دیکھ لیجئے
چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم
اب کتنی احتیاط سے چلنے لگے ہیں ہم
نیلی چھتری سے مراد ہے آسمان اور نیلی چھتری والا، خدا کو کہا جاتا ہے۔
چھتری کے نام پر کئی فلمیں بنیں تو کئی فلموں کے گیتوں میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔
چھتری سے متعلق کچھ دلچسپ معلوماتدنیا کی سب سے بڑی چھتری 2018 میں سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے صحن میں نصب کی گئی۔ چھتری کا عالمی دن ہر سال 10 فروری کو منایا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ چھتریاں جاپان میں استعمال کی جاتی ہیں، یہ ہی نہیں، یہاں یہ کرائے پر بھی ملتی ہیں۔ جاپان میں چھتری کو روحانیت اور طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے، جاپانی روایات کے مطابق چھتری دیوتاؤں اور روحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ایک ارب سے زائد چھتریاں فروخت ہوتی ہیں۔
چھتری نے کئی مرتبہ پاکستان سمیت دنیا کی کئی معروف شخصیات کو مشکل میں بھی ڈالا، جیسے فرانس کے دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے پروٹوکول آفیسر سے چھتری کھینچ لی، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
2021 میں اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی چھتری کے باعث تنقید کی زد میں آ گئے۔ اپنے روسی ہم منصب کے استقبال کے لیے پہنچے اور اُن کے ساتھ ایک شخص چھتری تھامے ہوئے تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ جدت تو آئی مگر چھتری کیسی ہی ہو، ضرورت کی چیز ہے اور بارش اور دھوپ میں خوب ساتھ نبھاتی ہے۔
بادل چھائے اور گرجے، پیغام دیا یہ ہی
نکلنے لگے ہو اگر گھر سے تو چھتری بھی اٹھا لو
احمد کاشف سعید
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: استعمال کر میں چھتری کی چھتری چھتری کا چھتری کی جاتا ہے میں بھی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
سربراہ تحریک بیداری امت مصطفی کا لاہور میں تقریب سے خطاب میں کہنا تھا کہ امریکہ نے کبھی کسی کیساتھ وفاداری نہیں کی، وہ ہمیشہ شیطانِ اکبر رہا ہے،حکومت پاکستان کا یہ کہنا کہ امریکہ بھی ہمارا دوست ہے اور چین بھی ہمارا ساتھی، ایک خود فریبی ہے، کیونکہ ایک بغل میں دو تربوز نہیں سنبھالے جا سکتے۔ یہ پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسلام ٹائمز۔ سربراہ تحریک بیداری امت مصطفی علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کا یہ کہنا کہ امریکہ بھی ہمارا دوست ہے اور چین بھی ہمارا ساتھی، ایک خود فریبی ہے، کیونکہ ایک بغل میں دو تربوز نہیں سنبھالے جا سکتے۔ یہ پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حکمران بارہا یہ غلطی دہراتے رہے ہیں کہ امریکہ پر اعتماد کیا جائے، حالانکہ امریکہ نے کبھی کسی کیساتھ وفاداری نہیں کی۔ وہ ہمیشہ سے شیطانِ اکبر رہا ہے، جس نے پاکستان میں بحران کھڑے کیے، اپنے مفادات سمیٹے اور حکمرانوں کو محض ایک کھلونا بنایا۔ اگر یہی رویہ جاری رہا تو امریکہ ایک بار پھر پاکستان کو بحرانوں میں دھکیل دے گا۔
علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ اگر پاکستان اپنی پالیسی میں امریکہ کی طرف جھکاؤ اختیار کرے گا تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ چین جیسے دوست کو کھو بیٹھے گا۔ چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی پروڈکشن فیکٹری ہے اور اس کی نظریں بھارت کی وسیع مارکیٹ پر بھی مرکوز ہیں۔ اگر چین پاکستان کے بجائے بھارت کا رخ کر لے تو یہ پاکستان کیلئے بہت بڑا دھچکہ ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ سب کچھ امریکہ کی بڑی کامیابی اور خاص طور پر ٹرمپ کیلئے ایک عظیم سیاسی جیت ہوگی اگر وہ پاکستان کو چین سے دور کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنی پالیسیوں کو حقیقت پسندانہ رخ دے اور امریکہ جیسے دھوکے باز ملک پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے حقیقی اتحادیوں کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے۔