غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دیئے؛ اسرائیلی وزیر کی دھمکی؛ ہولناک ویڈیو
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
اسرائیلی وزیر دفاع نے دھمکی دی ہے کہ غزہ میں دوزخ کے دروازے کھول دیئے اور یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حماس یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ ہو جائے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کو حماس کے زیر استعمال عسکری مرکز قرار دیتے ہوئے سیکندوں میں منہدم کردیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے رہائشیوں کو عمارت خالی کرنے کے لیے چند منٹ دیے جس کے بعد مسطحہ ٹاور پر تین حملے کیے گئے۔
مقامی افراد نے الزام لگایا کہ ہزاروں بے گھر شہری پہلے ہی عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور ان کے پاس محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں۔
אחרי הודעת כץ ודו"צ שצה"ל יחל לתקוף רבי קומות בעזה: תיעוד תקיפת מגדל אל-מושתהא במערב העיר עזה pic.
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ عمارت کے زیرِ زمین خفیہ راستے اور کمانڈ سینٹر موجود تھے جسے فوجی کارروائیوں اور گھات لگا کر حملوں کے لیے استعمال کرتی تھی۔
اسرائیلی فوج کے بقول غزہ کے شمالی حصے میں اسلحہ کے ذخائر اور حماس کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جبکہ متعدد جنگجو مارے گئے۔
تاہم بیان میں حماس کے شہید جانبازوں کی تعداد نہیں بتائی گئی اور نہ ہی شناخت ظاہر کی گئی۔
قبل ازیں اسرائیلی فوج نے بتایا تھا کہ ایک اہم حماس رہنما ’’نورالدین دباغش‘‘ کو قتل کر دیا جو تنظیم کے مالیاتی نیٹ ورک کا انچارج اور جنگ کے دوران کروڑوں ڈالر حماس کو فراہم کرتے تھے۔
اسرائیلی کی ان تازہ کارروائیوں کے ساتھ ہی مصر نے ایک بار پھر متنبہ کیا کہ فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر جبری بے دخلی ناقابلِ قبول ہے۔
مصری وزیرِ خارجہ بدر عبدالاطی نے کہا کہ یہ نسل کشی ہے، لاکھوں بے گناہ شہریوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور مصنوعی قحط مسلط کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنا ’’قانونی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر ناقابلِ قبول ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج نے
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔