کلاﺅڈ برسٹ یا بادل پھٹنا کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں جمعرات کو بادل پھٹنے اور تیز بارشوں کے باعث آنے والے سیلابی ریلوں کی زد میں آ کر کم از کم 60 افراد ہلاک اور درجنوں لاپتا ہو گئے ہیں۔محکمہ موسمیات کی تعریف کے مطابق اگر کسی چھوٹے علاقے (ایک سے دس کلومیٹر کے اندر) میں ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ شدید بارش ہوتی ہے تو اس واقعے کو ’بادل کا پھٹنا‘ کہا جاتا ہے۔بعض اوقات ایک جگہ پر ایک سے زیادہ بادل پھٹ سکتے ہیں۔ ایسے میں جان و مال کا بہت نقصان ہوتا ہے جیسا کہ سنہ 2013 میں انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں ہوا تھا لیکن شدید بارش کے ہر واقعے کو بادل پھٹنا نہیں کہا جاتا۔
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر کی تیز بارش سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر قریب ہی کوئی دریا یا جھیل ہو اور وہ اچانک زیادہ پانی سے بھر جائے تو قریبی رہائشی علاقوں میں زیادہ نقصان ہوتا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق بادل پھٹنے کا واقعہ ایک سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹے پیمانے پر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ محکمہ موسمیات ریڈار کی مدد سے کسی بڑے علاقے میں بہت زیادہ بارشوں کی پیشین گوئی کر سکتا ہے، تاہم یہ بتانا مشکل ہے کہ بادل کس علاقے میں ہو گا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ایسی موسمی تبدیلیوں کی پیش گوئی یا نگرانی کے لیے بادل پھٹنے کے خطرے والے علاقوں میں ایک گھنے ریڈار نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے یا بہت اعلیٰ ریزولیوشن کے موسم کی پیشن گوئی کے ماڈلز کی ضرورت ہے جو اس طرح کے چھوٹے پیمانے پر ہونے والے واقعات کو پکڑ سکیں۔اگرچہ بادل پھٹنے کا امکان میدانی علاقوں میں بھی ہوسکتا ہے لیکن پہاڑی علاقوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی پہاڑی ڈھلوانیں بادلوں کے اوپر اٹھنے اور تیز بارش کا باعث بننے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں۔اس طرح کے واقعات مون سون کے دوران اور اس سے کچھ وقت پہلے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ انڈیا کے شمالی علاقوں میں مئی سے جولائی اور اگست کے درمیان نظر آتا ہے۔
TagsImportant News from Al Qamar.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: علاقوں میں بادل پھٹنے ہوتا ہے
پڑھیں:
سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو کیا ہم محض قدرت کی آفات کے طور پر قبول کرلیں یا ہمیں ان تباہ کاریوں پر حکمران طبقات کی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کا کتنا قصور ہے۔
حکمران اور طاقت ور طبقات ہمیشہ سے ہی ان تباہ کاریوں کو قدرت کے نام پر ڈال کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سمیت صلاحیتوں کی کمی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شدید بارشیں اور سیلاب کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا مگر ان معاملات میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نمٹنا اور نمٹنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہی حکومتی نظام کا اصل چیلنج ہوتا ہے۔
ہر دفعہ حکومت کی سطح پر یہ ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم نے اس بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سبق حاصل کیا ہے اور ان غلطیوں کو اگلی بار نہیں دہرایا جائے گا۔لیکن ہر بار پہلے والی غلطیوں کو نہ صرف دہرایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود غلطیوں کو اور زیادہ بدنما انداز سے دہرایا جاتا ہے ۔
یعنی سبق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ان معاملات سے نمٹنے میں ہماری پالیسی ایک ردعمل کی پالیسی ہے۔ اس عمل میں ہمیں ان حالات سے نمٹنے کا کوئی مستقل خاکہ نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم خاکہ یا منصوبہ موجود نہیں ہے۔
ماضی میں 2022کے سیلاب کے نتیجے میں حکمران طبقات نے بہت سے منصوبوں کی کہانی پیش کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عالمی امداد یا مالیاتی اداروں کی معاونت سے بہت سے ایسے منصوبے شروع کریں گے جو مستقبل میں ان آفات سے نمٹنے میں بڑی مدد دے سکیں گے۔
لیکن حکمرانوں کے منصوبے ،دعوے اور خوش نما خواب محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے اور عملی طور پر ہم کسی قسم کے ایسے منصوبے تیار نہیں کرسکے جو ہمیں ان حالات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے ۔
وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم مجموعی طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد کوئی ایسے منصوبے نہیں تیار کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔2025میں جو شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تباہ کاریاں آج بھی بدستور جاری ہیں وہ حکومت کی نااہلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔
اب تک 60لاکھ سے زیادہ افراد حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثرین کے لیے فوری ریلیف ہوتا ہے جو ان کی بنیادی ضرورت اور جان ومال کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
کیونکہ پاکستان میں شفافیت پر مبنی گورننس کا نظام ہمیشہ سے خرابیوں کی مختلف نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ،انتظامی اور مالی سطح پر ہمیں شفافیت اور اعلیٰ اور بروقت صلاحیتوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر جو بھی سیلاب کے متاثرین ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی سے نالاں ہوتے ہیں اور ان کے بقول ہمارا زیادہ نقصان قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں اور عدم شفافیت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔
لوگوں کے گھر ہی نہیں بلکہ ان کی زمینیں اور عملی طور پر زراعت سے جڑا ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔ان کی جمع شدہ پونجی بھی برباد ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے ریاست ،حکومت اور نجی شعبے کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کی یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ یہ وہی پرانی کہانی ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے نظام کے ساتھ چل رہی ہیں اور جو لوگ بھی حکومتی یا انتظامی سطح پر ذمے داران ہوتے ہیں وہی گھوم پھر کر ہر حکومت یا انتظامی ڈھانچوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کی نااہلی سے جو مسائل پیدا ہوئے اس کا حساب کون دے گا ۔
کیونکہ حکومتی نظام میں ایک ایسا مضبوط گٹھ جوڑ ہے جو ہماری بڑی ناکامیوں کی بنیاد ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہاں پر کرپشن اور نااہلی کا کھیل نمایاں ہے اور اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔