Express News:
2025-11-03@01:36:41 GMT

دھوپ کے چشمے سے جڑے مفروضات کی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT

آنکھ……خدا کی طرف سے عطا کردہ وہ انمول نعمت ہے، جو نہ صرف دنیا کے رنگ و نور کو دیکھنے کا ذریعہ ہے بلکہ انسان کی باطنی دنیا کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

شاعروں نے آنکھ کو محبت کی علامت کہا، صوفیوں نے اسے بصیرت کا مرکز قرار دیا اور فنکاروں نے اس میں حسن کی جوت دیکھی لیکن یہ نازک گوہر قدرت کے سب سے زیادہ حساس اعضا میں سے ہے۔ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو زندگی کی رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جہاں آنکھ کا چراغ بجھ جائے، وہاں سورج کی روشنی بھی اندھیروں میں بدل جاتی ہے۔

آج کے دور میں جہاں فیشن اور طرزِ زندگی کی تیز رفتاری نے سب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، وہاں دھوپ کے چشمے محض ایک ’’اسٹائل آئیکون‘‘ سمجھ لیے گئے ہیں حالاں کہ اصل میں یہ آنکھوں کو سورج کی مضر شعاعوں سے بچانے کا قیمتی ہتھیار ہیں۔ ماہرینِ چشم اس بات پر متفق ہیں کہ سورج کی الٹرا وائلٹ (UV) شعاعیں آنکھوں پر ویسا ہی اثر ڈالتی ہیں جیسا جلد پر ڈالتی ہیں، جھریاں، وقت سے پہلے بڑھاپا اور یہاں تک کہ نظر کو مستقل نقصان پہنچنا، مگر افسوس کہ عوام میں دھوپ کے چشموں سے متعلق کئی ایسی غلط فہمیاں گردش کرتی ہیں جو نہ صرف حقیقت سے دور ہیں بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں وہ دس عام غلط تصورات جو آپ کی آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، لہذا انہیں ترک کرنا آپ کی آنکھوں کی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔

1۔ مہنگے چشمے ہی بہتر ہوتے ہیں

اکثر لوگ دکان پر پہنچتے ہی سب سے پہلے برانڈ اور قیمت پر نظر ڈالتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر چشمہ مہنگا ہے تو یقیناً بہتر بھی ہوگا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

امریکن میامی آئی انسٹی ٹیوٹ کی مینجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر اِنّا اوزیروف کہتی ہیں کہ قیمت معیار کی ضمانت نہیں، اصل بات یہ ہے کہ آیا چشمہ الٹرا وائلٹ اے اور الٹر وائلٹ بی شعاعوں کو مکمل طور پر روک سکتا ہے یا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے چشمہ ہزاروں کا ہو یا چند سو روپے کا، جب تک اس پر الٹرا وائلٹ (UV) پروٹیکشن کی مہر ثبت نہیں، وہ آپ کی آنکھوں کا محافظ نہیں۔ اس لیے اگلی بار جب آپ چشمہ کی خریداری کے لیے جائیں تو قیمت کے بجائے لیبل کو ضرور پڑھیں۔

2۔ چشمے کا سائز کوئی معنی نہیں رکھتا

یہ بھی ایک عام مغالطہ ہے۔ لوگ اکثر صرف اس بات پر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ آنکھ کے سامنے کوئی رکاوٹ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چشمے کا سائز جتنا بڑا ہوگا، اتنی ہی زیادہ حفاظت فراہم کرے گا۔ جب ہم چشمہ پہنتے ہیں تو پْتلی (Pupil) اندھیرے کے باعث زیادہ کھل جاتی ہے۔ اگر فریم چھوٹا ہے تو اطراف سے آنے والی شعاعیں آسانی سے اندر جا کر نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین بڑے لینز اور چوڑے فریم والے چشمے تجویز کرتے ہیں تاکہ آنکھ کے اردگرد کی جلد بھی محفوظ رہے۔

3۔ خراشیں (Scratches) کوئی مسئلہ نہیں

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چشمے پر معمولی خراشوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن یہ سوچ غلط ہے۔ چشمے پر خراشیں آنکھوں کو مسلسل دباؤ میں رکھتی ہیں کیوں کہ دماغ کو تصویر صاف کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس سے آنکھوں کی تھکن، سر درد اور بعض اوقات چڑچڑاپن بھی ہو سکتا ہے۔ سوچئے! جیسے آپ ٹوٹے ہوئے شیشے کے گلاس سے پانی پینے میں تذبذب محسوس کریں گے، ویسے ہی آنکھ کو بھی خراب لینز سے نقصان پہنچتا ہے۔

4۔ لینز کا رنگ اہمیت رکھتا ہے

مارکیٹ میں لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’’براؤن لینز زیادہ اچھے ہیں، نہیں نہیں گرے بہتر ہیں!‘‘ لیکن یہ بحث سراسر فضول ہے۔ رنگ کا تعلق صرف پسند یا اسٹائل سے ہے۔ الٹرا وائلٹ (UV) شعاعوں کو روکنے کے معاملے میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ البتہ بعض صورتوں میں مختلف رنگ کے لینز روشنی کے تاثر کو بدل سکتے ہیں، جیسے ڈرائیونگ کے دوران براؤن لینز کنٹراسٹ کو واضح کر سکتے ہیں لیکن اصل حفاظت ہمیشہ UV فلٹر سے آتی ہے، رنگ سے نہیں۔

5۔ سبھی چشمے چمک کو کم کرتے ہیں

یہ ایک اور بڑا مغالطہ ہے۔ صرف پولرائزڈ لینز(Lenses Polarized) ہی روشنی کی جھلک کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ کسی ندی یا نہر کے کنارے بیٹھے ہوں، برف پر اسکیٹنگ کر رہے ہوں یا تیز دھوپ میں ڈرائیونگ، ایسے وقت میں پولرائزڈ چشمے آنکھوں کو سکون بخشتے ہیں۔ ہالی وڈ آئی فلوریڈا(امریکا) کے ڈاکٹر بیری کے وضاحت کرتے ہیں کہ پولرائزیشن اور UV پروٹیکشن الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایک چمک کو کم کرتا ہے، دوسرا شعاعوں کو روکتا ہے۔ بہترین چشمے وہ ہیں جو دونوں خوبیوں کے حامل ہوں۔

6۔ چشمے کی میعاد ختم ہو جاتی ہے

کیا واقعی چشمے ’’ایکسپائر‘‘ ہو جاتے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ چشمے کا الٹراوائلٹ (UV) فلٹر وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوتا۔ لیکن ہاں، زیادہ استعمال، خراشیں، یا غیر محتاط طریقے سے رکھنے سے ان کی کوالٹی کم ضرور ہو جاتی ہے، یعنی چشمے کی عمر آپ کے استعمال پر منحصر ہے۔ اگر آپ انہیں ہمیشہ کور میں رکھیں اور احتیاط سے استعمال کریں تو برسوں تک وہ اپنی کارکردگی قائم رکھ سکتے ہیں۔

7۔ سستے چشمے بھی کافی ہیں

یہ جزوی طور پر درست ہے۔ سستے چشمے اگر الٹرا وائلٹ (UV) پروٹیکشن والے ہوں تو وہ بنیادی حفاظت ضرور دیتے ہیں۔ مگر مسئلہ ان کے لینز کے معیار کا ہے۔ اکثر سستے چشمے غیر متوازن یا خراب شیشے سے بنے ہوتے ہیں، جو نظر کو بگاڑتے ہیں اور سر درد پیدا کرتے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آنکھوں کے لیے بچت نہیں بلکہ "سرمایہ کاری" کرنی چاہیے۔ بہتر ہے کہ چشمے چاہے بغیر نمبر کے ہوں لیکنlenses quality Prescription پر مبنی ہوں۔

8۔ گہرے رنگ والے لینز زیادہ محفوظ ہیں

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاہ لینز جتنے گہرے ہوں گے، اتنے ہی محفوظ ہوں گے لیکن یہ ایک غلط تصور ہے۔ گہرے لینز محض آنکھ کو اندھیرے کا احساس دلاتے ہیں، الٹرا وائلٹ (UV) شعاعوں کو روکنے سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ کبھی کبھار گہرے لینز زیادہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں، کیوں کہ ان سے آنکھ کی پْتلی زیادہ کھلتی ہے اور اگر الٹرا وائلٹ (UV) فلٹر موجود نہ ہو تو نقصان اور بڑھ سکتا ہے۔

9۔ ہر چشمہ الٹرا وائلٹ اے اور الٹر وائلٹ بی شعاعوں کو روکتا ہے

مارکیٹ میں ہزاروں چشمے صرف ’’فیشن آئٹمز‘‘ کے طور پر فروخت ہوتے ہیں۔ ان میں الٹرا وائلٹ (UV) پروٹیکشن بالکل نہیں ہوتا۔ ایسے چشمے دراصل فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنتے ہیں کیوں کہ وہ آنکھ کو اندھیرے کا دھوکہ دے کر پْتلی کو کھول دیتے ہیں اور مزید نقصان دہ شعاعوں کو اندر آنے دیتے ہیں۔ امریکن ڈاکٹر جسٹن بیزان کا مشورہ ہے کہ ہمیشہ وہی چشمہ خریدیں جس پر واضح طور پر UV پروٹیکشن کا اسٹیکر یا لیبل موجود ہو۔

10۔ چشمے صرف گرمیوں میں ضروری ہیں

یہ شاید سب سے عام غلط فہمی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ دھوپ صرف گرمیوں میں نقصان دہ ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سردیوں میں برف یا پانی سے منعکس ہونے والی شعاعیں کئی گنا زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی برف پوش پہاڑوں پر دھوپ کی تیزی دیکھی ہے؟ وہاں روشنی آنکھوں کو فوراً چکا چوند کر دیتی ہے۔ اسی لیے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ موسم کوئی بھی ہو، چشمہ ہمیشہ استعمال کریں۔

آنکھیں روشنی کا وہ دروازہ ہیں جو ہمیں کائنات کے رنگ دکھاتا ہے۔ ان کی حفاظت محض ذاتی ضرورت نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ فیشن کی چمک دمک اپنی جگہ لیکن آنکھوں کے اصل محافظ وہ چشمے ہیں جو UVA اور UVB شعاعوں کو مکمل طور پر روک سکیں۔ یاد رکھیے، مہنگا چشمہ آپ کو اس وقت تک تحفظ نہیں دے سکتا جب تک اس میں سائنسی پروٹیکشن نہ ہو۔ سادہ الفاظ میں قیمت نہیں، معیار دیکھیں۔ رنگ نہیں، UV فلٹر دیکھیں۔ موسم نہیں، ہمیشہ چشمہ پہنیں۔ یوں آپ اپنی بینائی کو طویل عرصے تک روشن اور محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا نکھوں کو شعاعوں کو کرتے ہیں دیتے ہیں ہیں بلکہ سکتے ہیں ا نکھ کو یہ ہے کہ جاتی ہے لیکن یہ کہ چشمے سکتا ہے ہیں جو کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

کراچی والوں کو بخش بھی دیں

حکومت سندھ نے پہلے سے عذابوں میں مبتلا ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہریوں پر ایک اور مزید مہربانی کی اور کراچی ٹریفک پولیس کے ذریعے نئے فیس لیس ای ٹریکنگ سسٹم (ٹریکس) کا نفاذ کرا دیا جس کے نتیجے میں صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے اور کمائی کا ایک نیا طریقہ ہاتھ آ گیا جو شاید لاہور کی نقل میں کیا گیا ہے جہاں کشادہ اور خوبصورت سڑکوں پر گاڑیاں تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی والوں سے ٹریکس کے ذریعے جو بھاری جرمانوں کے ذریعے آمدنی ہو رہی ہے وہ رقم سڑکوں اور شاہراہوں کے علاوہ اندرون شہر میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی جا رہی ہے۔

کراچی میں ٹریکس کے ذریعے کمائی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس کے ذریعے صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ 30 لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے جس کی ملک بھر میں مثال نہیں ملتی کہ افتتاح کے بعد کسی اور شہر میں اتنی بڑی رقم کے ای ٹکٹس جاری ہوئے ہوں، جن کی تعداد 2600 سے زائد ہے جب کہ کراچی میں لاہور جیسی سڑکیں شاید چند ہی ہیں جو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی بجائے دیگر اداروں کے ماتحت ہوں۔

ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق شہر کے 30 فی صد علاقوں میں جدید کیمروں کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا گیا ہے اور باقی 70 فی صد جن سڑکوں پر ٹریفک سگنل، لین مارکنگ، زیبرا کراسنگ اور اسٹاپ لائن موجود ہی نہیں، وہاں ای ٹکٹ جاری نہیں ہوں گے۔ یہ فیصلہ سندھ حکومت کا شہریوں پر احسان عظیم ہے، ورنہ کراچی کی ٹریفک پولیس نے نئے ناظم آباد اور ان علاقوں میں بھی جرمانے کیے ہیں جو نجی رہائشی منصوبے ہیں جہاں سڑکوں کی تعمیر کوئی بلدیاتی ادارہ نہیں بلکہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کراتی ہیں جو مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں۔

کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ کی خلاف ورزی، ہیلمٹ نہ استعمال کرنے پر کیے گئے جب کہ اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، لین لائن کی خلاف ورزیوں پر ہوئے ہیں۔ ٹریفک کے جدید خودکار نظام میں سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کو سافٹ ویئر سے منسلک کرکے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔

یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی عام بنی ہوئی ہے اور پوش علاقوں والے فخریہ طور پر ٹریفک قوانین توڑتے ہیں اور جرمانے ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ مہنگی گاڑیوں اور لاکھوں روپے مالیت کی ہیوی بائیکس پر شوقیہ سفر کرتے اور جان بوجھ کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے آ رہے ہیں۔

پوش علاقوں کی امیر خواتین کے لیے بھی ٹریفک قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے متعدد افراد کو کچل چکی ہیں اور نہایت امیر گھرانوں کی یہ خواتین گرفتار بھی ہو چکی ہیں اور پوش علاقوں کے نوجوان بھی اس سلسلے میں کم نہیں جب کہ شہر کے اندرونی علاقوں میں کمسن بچے گلیوں میں موٹر سائیکلیں اس کے باوجود دوڑاتے ہیں کہ وہاں سڑکوں کا وجود نہیں ہوتا اور راستے بھی ناہموار ہوتے ہیں اور ان کے والدین بھی اپنے کمسن بچوں کو موٹرسائیکلیں دے دیتے ہیں جن سے اکثر حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ٹریفک پولیس مرکزی شاہراہوں پر جلد 12 ہزار جدید کیمرے نصب کرے گی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں پر بھاری جرمانے ہوں گے جن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تصور ٹریفک پولیس افسران کو بھی نہیں ہوگا۔

ٹریکس کا نشانہ شہر کی وہ اکثریتی آبادی بنے گی، جہاں سڑکوں کا وجود نہیں اور اگر سڑکیں ہیں تو وہ انتہائی تباہ حال ہیں جہاں جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور پیدل چلنے کے بھی قابل نہیں رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ایک ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ ای ٹکٹس سسٹم حکومت نے جرمانہ وصولی کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے جب کہ اس سے قبل آئی جی پولیس کا ایک بیان میڈیا میں آیا تھا کہ ٹریفک خلاف ورزی پر ان کے خیال میں جرمانہ کم ہے جو کم ازکم ایک لاکھ روپے ہونا چاہیے اس بیان سے واضح ہے کہ حکومت کو کراچی کے لوگوں کا کتنا احساس ہے اور حکومت نے عوام پر احسان کرکے بیس ہزار تک جرمانہ مقرر کیا ہے جس کی وصولی ای ٹکٹس سے شروع بھی ہو گئی ہے۔

حکومت اور کراچی ٹریفک پولیس کی بے حسی یہ ہے کہ اجرک والی موٹرسائیکل نمبر پلیٹس کی طرح ٹریکس کا نفاذ بھی صرف کراچی پر کیا گیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں کراچی سونے کی چڑیا ہے جہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے جو پہلے اجرک والی نمبر پلیٹس اور اب ای ٹکٹس سسٹم کے تحت وصول ہوگا جب کہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ کراچی میں سفری سہولتوں کا شدید فقدان ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد موٹر سائیکلوں کا استعمال کرتی ہے اور ان غریبوں کے پاس سفرکی جو کھٹارا بائیکس ہیں ان کی موجودہ پندرہ بیس ہزار روپے کی بھی مالیت نہیں ہے ان سے بھی ٹریفک خلاف ورزی پر جرمانہ بیس ہزار وصول کیا جائے گا۔

 ایم کیو ایم اور مرکزی مسلم لیگ نے ای ٹکٹس سسٹم کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے اور شہریوں نے بھی ٹریکس پر انتہائی برہمی اور تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اسے مزید کراچی دشمنی قرار دیا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کی دشمن بنی ہوئی ہے وہ پہلے کراچی کی صرف سڑکیں ہی تعمیر کرا دے پھر ٹریکس نافذ کرے۔

تباہ حال سڑکوں پر بے دردی سے جرمانے شہریوں پر ظلم کی انتہا ہے، اس لیے سندھ حکومت کراچی والوں کو اب تو بخش دے کیونکہ عالمی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اب کراچی رہائش کے قابل نہیں رہا، جس کے شہری تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور پی پی حکومت کراچی سے بے حسی پر اتری ہے، اب تو کراچی کو بخش دیا جائے اور سب سے پہلے کراچی والوں کو بنیادی سہولیات ہی فراہم کر دی جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • سوشل میڈیا پر وائرل سعودی اسکائی اسٹیڈیم کا راز کھل گیا
  • تجدید وتجدّْد