نیپال، سوشل میڈیا پر پابندیوں اور کرپشن کیخلاف احتجاج شدت اختیار کر گیا، 10 ہلاک، درجنوں زخمی
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
نیپال میں حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندیوں اور بدعنوانی کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج اب ایک شدید عوامی تحریک میں تبدیل ہو چکا ہے۔
دارالحکومت کھٹمنڈو سمیت مختلف شہروں میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، جہاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 87 سے زائد زخمی ہو گئے۔
مظاہرین نے قومی پرچم تھامے ہوئے نیپال کا قومی ترانہ پڑھ کر احتجاج کا آغاز کیا، جس کے بعد سوشل میڈیا کی بندش اور حکومتی کرپشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ حالات اس وقت بگڑ گئے جب مظاہرین پارلیمنٹ کے قریب ریڈ زون میں داخل ہو گئے اور خار دار تاریں عبور کر کے احاطے تک جا پہنچے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔ قریبی سول اسپتال کی افسر رنجنا نیپال کے مطابق، ’’آنسو گیس کے اثرات اسپتال تک آ گئے، جس سے ڈاکٹروں کا کام کرنا بھی مشکل ہو گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں اسپتال میں ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘
پرتشدد مناظر کے بعد حکام نے پارلیمنٹ، صدر کی رہائش گاہ اور وزیر اعظم کے دفتر (سنگھ دربار) کے آس پاس کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ ملک کے دیگر اضلاع میں بھی احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
پابندیوں کی وجہ اور عوامی ردعمل
احتجاج اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب نیپالی حکومت نے معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، یوٹیوب، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پابندیاں عائد کر دیں۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ ان کمپنیوں نے مقامی رجسٹریشن کی شرط پوری نہیں کی، اس لیے انہیں عارضی طور پر بلاک کیا گیا لیکن عوام کے لیے یہ محض ٹیکنیکل مسئلہ نہیں، بلکہ ایک بڑی آزادی پر حملہ محسوس کیا گیا۔ 24 سالہ طالب علم یوجن راجبھنداری کا کہنا ہے، ’’ہم صرف سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف نہیں، بلکہ اداروں میں پھیلی بدعنوانی کے خلاف بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔‘‘
اسی طرح 20 سالہ طالبہ اکشما تومروک نے کہا، ’’یہ صرف احتجاج نہیں، یہ تبدیلی کا مطالبہ ہے۔ ہم حکومت کے آمرانہ رویے سے تنگ آ چکے ہیں۔ یہ سلسلہ اب ہماری نسل کے ساتھ ختم ہونا چاہیے۔‘‘
وائرل ویڈیوز اور عوامی غصہ
سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں سیاستدانوں اور اعلیٰ حکام کے بچوں کی پرتعیش زندگی کو عام نیپالی عوام کی غربت اور پریشانیوں کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے۔ ان ویڈیوز نے عوامی غصے میں مزید شدت پیدا کی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
9مئی واقعات میں ملوث ہونے پر سہیل آفریدی کی عوامی عہدے کے لیے اہلیت سوالیہ نشان ہے، اختیار ولی خان
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والی ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سہیل آفریدی نے 9 مئی کے واقعات کے دوران مسلح گروہوں کی قیادت کی، جس سے ان کے کردار اور عوامی عہدے کے لیے اہلیت پر سنجیدہ سوالات اٹھ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اختیار ولی کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی پر الزامات سراسر جھوٹ اور پروپیگنڈا ہیں، مینا خان آفریدی
اختیار ولی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ویڈیوز میں سہیل آفریدی ہنگامہ آرائی کرنے والے مظاہرین کے ساتھ موجود ہیں اور ریاستی اہلکاروں پر پتھراؤ کی قیادت کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کے بقول یہ شواہد اس بات میں کوئی ابہام نہیں چھوڑتے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی براہِ راست قیادت کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اسے جعلی قرار دینے کی مہم شروع کر دی، تاہم فرانزک تحقیق کے بعد حقائق بالکل واضح ہو جائیں گے۔
اختیار ولی خان نے کہا کہ یہ کہنا کہ ویڈیوز کسی اور موقع کی ہیں، جرم کی سنگینی کو کم نہیں کرتا۔ ان کے مطابق سہیل آفریدی کا کردار 9 مئی کے دیگر ملزمان سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بی آر ٹی، مالم جبہ کیس دوبارہ کھلنے چاہئیں، اختیار ولی خان
انہوں نے الزام عائد کیا کہ بطور وزیر اعلیٰ حلف اٹھانے کے باوجود سہیل آفریدی کے بیانات اور تقاریر آئینی حلف سے انحراف ہیں، اور ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو اکسانا سنگین بغاوت کے مترادف ہے۔
اختیار ولی نے دعویٰ کیا کہ تازہ شواہد نے سہیل آفریدی اور ان کی جماعت کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے.
9 مئی کے واقعات
9 مئی 2023 کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں مظاہرین نے سرکاری و عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا، جن میں لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس بھی شامل تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9مئی we news اختیار ولی خان سہیل آفریدی کورکمانڈر ہاؤس