مودی سرکار کی ناقص پالیسیوں سے بھارت کی برآمدی معیشت مفلوج، عوام بے حال
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
بھارت میں مودی سرکار کی ناقص پالیسیوں سے جہاں برآمدی معیشت مفلوج ہو چکی ہے، وہیں بھارتی عوام بھی بے حال ہو چکے ہیں۔
بی جے پی کی کٹھ پتلی مودی سرکار عملی اقدامات کے بجائے ’’سوا دیشی ‘‘ جیسے کھوکھلے سیاسی نعروں میں مصروف ہے۔ بھارتی جریدے دی وائر کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی درآمدی پالیسیوں نے بھارت کی محنت کش صنعتوں کو شدید بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
دی وائر کے مطابق ٹیکسٹائل، چمڑے، جھینگا اور زیورات کی صنعتوں کو امریکی ٹیرف سے براہِ راست نقصان پہنچا ہے۔ بھارت کی مزدور برادری کے لاکھوں افراد اپنی نوکریاں کھونے کے خطرے میں ہیں۔ اس پس منظر میں مودی کا ’’سوادیشی‘‘ کا اعلان دراصل قوم پرستانہ جذبات کو ابھارنے کی کوشش ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’’سوادیشی‘‘ کا نعرہ لگانے کے باوجود متاثرہ مزدور طبقے کے لیے کوئی فوری عملی حل سامنے نہیں آیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی معیشت میں خود انحصاری کا نعرہ اب بھی کوئی اثر رکھتا ہے۔ مقامی منڈی میں وہ قیمتیں موجود نہیں جن سے برآمدی صنعتوں کو سہارا مل سکے ۔
سابق گورنر ریزرو بینک آف انڈیا رگھورام راجن نے سوال اٹھایا ہے کہ ’’ روسی تیل کی پالیسی سے اصل فائدہ کن کو ہو رہا ہے؟‘‘۔ کیا اس منافع کا کچھ حصہ ان مزدوروں کو دیا جانا چاہیےجو امریکی ٹیرف سے متاثر ہوئے ہیں؟۔ روسی تیل سے حاصل ہونے والے منافع سے متاثرہ مزدوروں کی مدد کیوں نہیں کی جاتی ؟۔
دی وائر کے مطابق حکومت مزدوروں کو بچانے کے لیے امریکا سے مذاکرات کرے گی یا محض قوم پرستی کے نعروں پر انحصار ہے؟۔ امریکی ٹیرف کے باعث بھارتی مزدور شدید مشکلات میں ہیں اور حکومت فوری ریلیف دینے میں ناکام ہے۔ مودی سرکار کا’’سوا دیشی نعرہ‘‘ صرف فریب اور عوام کو بہلانے کا ہتھکنڈا ہے ۔
مودی سرکار نے خود انحصاری کے نام پر بھارت کو معاشی تباہی اور عالمی تنہائی میں دھکیل دیا ہے۔ مودی سرکار کا نام نہاد ’’میڈ ان انڈیا‘‘ منصوبہ بھی ناکامی کی بدترین مثال بن چکا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مودی سرکار کے مطابق
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔