ڈھاکا:۔ ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی برادر طلبہ تنظیم بنگلادیش اسلامی چھاترا شبر نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ نائب صدارت، جنرل سیکرٹری اور اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری کی نشستوں پر چھاترا شِبر کے نامزد امیدواران بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔

بنگلہ دیش میں طلبہ یونین میں صدر کا انتخاب نہیں ہوتا۔ جنرل سیکریٹری مرکزی عہدہ ہوتا ہے ۔ وی نیوز کے مطابق جنرل سیکرٹری کی نشست کے لیے چھاترا شبر کے ایس ایم فرھاد 10794 ووٹ لے کر منتخب، چھاترا دل کے تنویر حمیم نے 5283 ووٹ اور مگمولرباسو نے 4949 ووٹ لیے۔

موصولہ نتائج کے مطابق نائب صدارت کے لیے اسلامی چھاترا شبر کے صادق قیم 14042ووٹ لے کر منتخب، چھاترا دل کے عابد الاسلام نے 5708 ووٹ ، شمیم حسین نے 3389 ووٹ اور امامہ فاطمہ نے 3389 ووٹ حاصل کیے۔

اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری کی نشست کے لیے اسلامی چھاترا شبر کے محمد محی الدین 11772 ووٹ لے کر منتخب، چھاترا دل کے تنویر الہادی نے 5064 ووٹ، اور اشریفہ خاتون نے 900 ووٹ لیے۔

واضح رہے کہ یونیورسٹی سطح پر نائب صدر، جنرل سیکرٹری، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل سمیت یونین کی 28 نشستوں کے لیے 471 امیدوار مدمقابل تھے، صدر کا عہدہ نہیں ہے، اس کے علاوہ یونیورسٹی کے 18 ہالز کی سطح پر بھی 234 نشستوں کے لیے یونین کے انتخابات ہوئے ہیں، جن پر 1035 امیدواران مدمقابل تھے۔ باقی سب نشستوں کے نتائج آنا باقی ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس کوٹہ مخالف تحریک ڈھاکہ یونیورسٹی ہی سے شروع ہوئی تھی جو بعدازاں حکومت مخالف طلبہ انقلاب میں تبدیل ہوگئی، دوسری طرف حسینہ واجد حکومت اور اس دور کے سرکاری ذرائع نے بارہا الزام لگایا کہ شبر کے تشدد پسند عناصر تحریک کو سبوتاژ کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: جنرل سیکرٹری شبر کے کے لیے

پڑھیں:

میئر کراچی کی گھن گرج!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-2

 

کراچی آج جس صورتحال سے دوچار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ملک کے اقتصادی پہیے کو رواں دواں رکھنے والے اس شہر کے مسائل و مشکلات کو مسلسل نظر انداز کرنے کے نتیجے میں روشنیوں کا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ٹرانسپورٹ کے نظام کی زبوں حالی و بربادی، سڑکوں کی خستہ حالی، واٹر ٹینکرز اور ڈمپرز سے شہریوں کی ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیوریج کے نظام کی خرابی، کچرا کنڈیوں سے اٹھتے ہوئے تعفن کے بھبکے، بے ہنگم ٹریفک، پانی کا مصنوعی بحران، جابجا کھلے مین ہول، اربن فلڈنگ، سیوریج لائن کا پانی کی لائنوں سے ملاپ، برساتی نالوں کی عدم صفائی، تجاوزات کی بھرمار، فٹ پاتھوں پر پتھارے داروں کا قبضہ اور صفائی ستھرائی کی مخدوش صورتحال شہر کے اختیارات پر قابض میئر کراچی کی اعلیٰ کارکردگی کا مظہر ہیں، یہ اعلیٰ کارکردگی اس وقت اور مزید نمایاں ہوجاتی ہے جب شہر میں بارش کی چند بوندیں برس جائیں۔ قومی خزانے سے شہر میں جہاں جہاں تعمیر و ترقی کے کام ہورہے ہیں اس کا حال بھی یہ ہے وہ بارش کے ایک ہی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس کی واضح مثال شاہراہ بھٹو اور نئی حب کینال ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود آج بھی شہر کی مختلف سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہے۔ شہر کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جماعت ِ اسلامی طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہے، حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی جماعت اسلامی نے بھر پور آواز بلند کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کراچی کو ہنگامی طور 500 ارب روپے اور صوبائی حکومت ہر ٹائون کو 2 ارب روپے ترقیاتی فنڈز دے۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سالڈ ویسٹ کے اختیارات ٹائون کو منتقل کیے جائیں۔ جماعت ِ اسلامی کے ان مطالبات اور تنقید پر غور کرنے کے بجائے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سیخ پا ہیں کہتے ہیں کہ شہر میں سیوریج کے نظام کی خرابی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 2003 میں شہر کا ماسٹر پلان ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، شہر کی پوری سڑکوں کو کمرشل کرنے کی اجازت جماعت اسلامی نے دی تھی، اب اس شہر میں منافقت نہیں چلنے دوں گا اور ان کو سخت الفاظ میں جواب دوں گا۔ لیجیے بات ہی ختم۔ کسی بھی سطح پر اقتدار کے منصب پر فائز افراد کا یہی وہ طرز عمل ہے جس نے تعمیر و ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے، خیر سگالی پر مبنی تنقید پر مثبت طرز عمل کو بالائے طاق رکھ کر جب اسے انا کا مسئلہ بنادیا جائے تو اسی طرح منافقت کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں اور ترکی بہ ترکی جواب دینے جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بارشوں سے اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی بدانتظامی، نااہلی اور بدعنوانی سے ہوئی ہے، کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا میڈیٹ جماعت ِ اسلامی کے حوالے کیا تھا مگر اس میڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اس ڈاکے کا لازمی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے ہے۔ میئر کراچی کو آپے سے باہر ہونے اور الزامات عاید کرنے کے بجائے شہر کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنی توانیاں صرف کرنی چاہییں۔ کراچی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کراچی کے شہری روز جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور شہر عملاً جس صورتحال سے دوچار ہے اس پر لفظوں کی گھن گرج اور منافقت کے الزامات سے پردہ نہیں ڈلا جا سکتا۔ شہر کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے محض بلند و بانگ دعوؤں سے کراچی کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں عمل کے میزان میں دعوؤں کا کوئی وزن نہیں ہوتا، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے اور بحیثیت میئر انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ کا جامعہ پنجاب سے طلبہ کی گرفتاریوں پر شدید ردعمل
  • اسلامی جمعیت طلبہ کاملک گیر فریشر ز ویلکم مہم کا اعلان
  • طلبہ یونین الیکشن کا ضابطہ اخلاق 21دن میں تیارکرنے کا حکم
  • ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
  • اسلامی چھاترو شبر کی کامیابی
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • لاہور: تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے ہیں
  • گورنرخیبرپختونخوا کا پاکستان بوائز سکاؤٹ ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ،تنظیم کے حوالے سے امور بارے تبادلہ خیال کیا
  • بلاول بھٹو زرداری کا شنگھائی کی فودان یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب