Express News:
2025-09-17@21:33:34 GMT

قطر پر اسرائیلی حملہ، اسرائیل امن کا خواہاں نہیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

اسرائیلی یہودی چینل 14نے رپورٹ کیا ہے کہ دوحہ قطر میں حماس کی قیادت پر حملے کے لیے منگل کو 10اسرائیلی طیاروں نے اُڑان بھری۔ان کا ہدف1800کلومیٹر دور تھا۔ایک برطانوی ہوائی آئل ٹینکر نے دوحہ سے ہی ٹیک آف کیا اور اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو دورانِ پرواز ایندھن فراہم کر کے واپس قطر اتر گیا۔ستم ظریفی دیکھئے اور قطر کی بے بسی ملاحظہ ہو کہ قطر پر حملے کے لیے برطانوی آئل ٹینکر قطر سے اڑا اور واپس قطر میں ہی لینڈ کر گیا۔

عرب ریاستوں کی حالت عجیب ہے۔اسرائیل کے دس F-35طیاروں نے راستے میںسعودی عرب،اردن اور عراق کی فضائی حدود سے پرواز کرتے ہوئے قطر میں دوحہ پر حملہ کیا۔ حملے کے بعد یہ اسرائیلی لڑاکا طیارے اسی فضائی راستے سے ہوتے ہوئے اسرائیل میں اتر گئے۔واپسی کے سفر میں امریکی آئل ٹینکر طیاروں نے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو فضا میں ایندھن فراہم کیا۔

ایک چھوٹی سی،گیس کے وسیع ذخائر رکھنے والی خلیجی عرب ریاست قطر،اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ اس کے پاس بے پناہ دولت ہے۔یہ ریاست مڈل ایسٹ میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے اور اس علاقے کے لیے امریکی کمانڈ CENTCOM ہیڈ کوارٹر کی میزبانی کرتی ہے۔

قطر کو اتنے بڑے فوجی اڈے اور سینٹ کام ہیڈکوارٹر کی وجہ سے شاید یہ غلط فہمی تھی کہ اس کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے اور کوئی دوسرا ملک اس پر حملے کی جرات نہیں کرے گا۔مگر یہ قطر کی خام خیالی نکلی۔پچھلے دنوں ایران،اسرائیل جنگ کے اختتامی دنوں میں جب امریکی بی ٹو بمبار جہازوں نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کیے تو ایران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔امریکا نے حملے سے پہلے ایران کو خبردار کر دیا تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ حملہ یکبارگی ہوگا اور اسے دہرایا نہیں جائے گا۔

جواب میں ایران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنانے سے پہلے امریکا کو حملے سے آگاہ کرتے ہوئے تفصیلات شیئر کر دی تھیں۔اسی لیے دونوں اطراف کوئی خاص جانی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن قطر کی زمین پر حملہ تو ہو گیا اور اس کی سالمیت و خود مختاری تو چیلنج ہو گئی۔اب ایک بار پھر قطر کی زمین پر حملہ ہوا ہے۔

اسرائیل کہہ تو یہ رہا ہے کہ یہ اس کا اپنا اقدام ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے امریکا،برطانیہ،سعودی عرب،اردن اور عراق کو پیشگی اطلاع دے دی تھی، تبھی ان ممالک نے لڑاکا طیاروں کی ری فیولنگ کی اور عرب ممالک نے اپنی فضا کے استعمال کے لیے اسرائیل کو راہداری فراہم کی۔قطر امریکا کا میجر نان نیٹو اتحادی ہے اور اسرائیل تو گویا امریکا ہی ہے۔یوں قطر اپنے ایک بڑے اور قریبی اتحادی کے ہاتھوں پٹا ہے۔قطر نے امریکی صدر ٹرمپ کو اس کے دورے کے دوران400ملین ڈالر کا جمبو جیٹ تحفے میں پیش کیا تاکہ امریکا اسے ایئر فورس ون کے طور پر استعمال کرے۔قطر نے یہ سب کچھ کیا لیکن امریکا نے قطری زمین اور قطری فضائی حدود کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

امریکا نے حماس اسرائیل جنگ بندی کے لیے نئی تجاویز دی تھیں۔حماس نے اصولی طور پر ان تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے قطر میں اپنے رہنماؤں کو جمع کیا تاکہ وہ سب مل کر امریکی تجاویز کا جائزہ لیں۔دوحہ قطر میں حماس قیادت کا اجلاس جاری تھا جب اس پر اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے حملہ کر دیا۔پہلے یہ دلخراش اطلاع ملی کہ حماس کے چیف مذاکرات کار جناب خلیل الحیہ شہید ہو گئے لیکن پھر خبر آئی کہ حماس مذاکراتی ٹیم تو اس حملے میں بال بال بچ گئی ہے البتہ جناب خلیل الحیہ کے بیٹے اور وفد کے دوسرے پانچ ارکان بشمول ایک سیکیورٹی اہلکار مارے گئے۔

جناب خلیل الحیہ کی زوجہ محترمہ اور ان کے شہید ہونے والے بیٹے کی اہلیہ زخمی ہیں۔اسرائیل پچھلے کچھ عرصے سے حماس کی قیادت کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے۔اسی طرح نشانہ بناتے ہوئے اس نے حزب اﷲ کے سربراہ اور تقریباً ساری حزب قیادت مار ڈالی ہے۔حماس پولیٹیکل ونگ کے سربراہ جناب اسمٰعیل ہانیہ کو تہران میں نشانہ بنایا اور پھر جناب ہانیہ کی جگہ قیادت سنبھالنے والے کو غزہ میں شہید کر دیا۔اب اسرائیل حماس کی باقی ساری قیادت کو تہہ تیغ کرنا چاہتا ہے۔یاد رہے یہ وہی حماس ہے جسے اسرائیل نے خود کھڑا کیا تاکہ یاسر عرفات کی الفتح تنظیم کا اثر و رسوخ ختم کیا جا سکے۔

قطر نے اپنی زمین پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔کئی عرب اور مسلمان و غیر مسلمان ملکوں کے رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شدید مذمت کی ہے لیکن وہ مذمت کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔قطر نے اسے اسرائیل کی کھلی ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔حملے کے بعد قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری مذاکرات سے تاوقتِ ثانی ہاتھ کھینچ لیا لیکن شاید امریکا کے دباؤ میں آ کر جلدی ہی یہ کہہ دیا کہ وہ مذاکراتی عمل جاری رکھے گا۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ اس نے بقیہ حماس قیادت کو نشانہ بنایا جس نے 7اکتوبر2023 کو اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کی جرات کی تھی۔

اسرائیلی قیادت سمجھتی ہے کہ انھیں مذاکرات کہیں لے کر نہیں جا رہے اور یہ صرف وقت کا ضیاع ہے۔اسرائیل کے مطابق اگر حماس قیادت کو بالکل ختم نہ کیا گیا تو جنگ بندی کی صورت میں اسے وقت مل جائے گا۔یہ اپنے عزائم کے لیے مزید تیاری بھی کریں گے اور منفی اقدامات بھی اُٹھائیں گے۔اسرائیل اس بات کو یقینی بنانے پر تلا ہوا ہے کہ اس کے Hostages جلد از جلد واپس آئیں اور حماس غزہ پر دوبارہ حکومت کرنے کے قابل نہ رہے۔

اسرائیل نے یہ دکھا دیا ہے کہ حماس کی قیادت کہیں بھی محفوظ نہیں اور انھیں کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ مارا جا سکتا ہے۔اگر حماس کے دعوے کے مطابق ساری مذاکراتی ٹیم بچ بھی گئی ہے تو یہ خطرہ بہرحال موجود رہے گا کہ وہ اسرائیل کے نشانے پر ہیں اور اسرائیل اکیلا نہیں اسے امریکا اور مغرب کی حمایت و مدد حاصل ہے البتہ یہ تو کبھی ممکن نہیں ہو گا کہ حماس کے سارے جنگجو ختم ہو جائیں۔ہاں یہ خطرہ اب سر اٹھائے کھڑا ہے کہ حماس اب ایک تنظیم کے طور پر اکٹھی رہ سکے گی کہ نہیں۔ حماس کے لیے اب پلاننگ کرنا، ری سورسز جمع کرنا اور اقدامات اٹھانا مشکل بنتا جا رہا ہے۔اکثر عرب سربراہان حماس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کی یہ خواہش ہو گی کہ اسرائیل اور حماس میں اسرائیلی شرائط پر جنگ بند ہو جائے اور ساتھ ہی وہ یوکرین کی جنگ ختم کروا کے اپنے آپ کو نوبل انعام کے لیے سب سے مضبوط اور موزوں امیدوار کے طور پر سامنے لائیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل ایسے حملے کر کے فضا کیوں مکدر کر رہا ہے۔بظاہر اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کو امریکا اور اس کے صدر کی کوئی پرواہ نہیں۔نتن یاہو کو یقین ہے کہ صدر ٹرمپ کبھی اسرائیل کی مخالفت مول نہیں لے سکتے کیونکہ ساری امریکی قیادت اسرائیل کی مٹھی میں ہے۔

صدر ٹرمپ تو یروشلم جا کر یہودی بننے کی رسم بھی ادا کر چکے ہیں۔ان کے داماد تو ہیں ہی یہودی۔جو بھی امریکی اسرائیل کی مخالفت کرے گا اس کا سیاسی مستقبل ختم ہو جائے گا۔اسرائیل کو عرب ممالک کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔اسے یقین ہے کہ امریکی انتظامیہ اسرائیل کی حمایت میں عرب سربراہوں کو بس ایک بری نظر سے دیکھے گی اور عرب سربراہ ڈھیر ہو جائیں گے۔

ایران کو کمزور کرنے ، شام میں کامیاب قیادت تبدیلی اورحزب اﷲ کو ادھ موا کرنے کے بعد نتن یاہو بہت نڈر ہو چکا ہے۔اس کو مشرقِ وسطیٰ میں کوئی مزاحمت نظر نہیں آتی اس لیے نتن یاہو گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کو بے دھڑک آگے بڑھا رہا ہے۔امریکا و مغرب اس کی پشت پر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو دنوں میں اسرائیل نے لبنان،شام، تیونس،قطر اور یمن پر حملہ کیا ہے۔ایسے میں اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لڑاکا طیاروں اسرائیل نے اسرائیل کی اسرائیل کے کرتے ہوئے طیاروں نے قیادت کو فوجی اڈے نتن یاہو کی قیادت حملے کے پر حملے حماس کی حملے کی حماس کے پر حملہ کہ حماس اور اس رہا ہے قطر کی نہیں ا کے لیے

پڑھیں:

دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی  درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نیویارک: قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی فضائی حملے نے عالمی سطح پر ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے اور اب اس معاملے پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل آج جنیوا میں ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔

یہ اجلاس پاکستان اور کویت کی مشترکہ درخواست پر بلایا گیا ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر بحث کی جا سکے۔ یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلم دنیا اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے میں سفارتی محاذ پر متحرک ہے۔

اجلاس میں دوحا پر کیے گئے حملے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی کارروائیوں اور جنگی جارحیت پر بحث کی جائے گی۔

دوسری جانب اسرائیل نے اس اجلاس کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے فیصلے عالمی انسانی حقوق کے ڈھانچے کو متاثر کریں گے۔۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اسرائیل عالمی اداروں کے فیصلوں کو مسترد کرتا رہا ہے تاکہ اپنی جنگی پالیسیوں کو جاری رکھ سکے۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے دوحا میں ایک خفیہ اجلاس کو نشانہ بنایا تھا، جہاں حماس کی قیادت غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور امریکی صدر کی تجویز پر غور کر رہی تھی۔

حملے کے نتیجے میں 6 افراد شہید ہوئے تاہم حماس کے مرکزی رہنما محفوظ رہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق اس حملے کا مقصد صرف قیادت کو ختم کرنا نہیں بلکہ قطر جیسے ملک کو بھی دباؤ میں لانا تھا جو مسلسل فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔

پاکستان اور کویت کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم ممالک اب اسرائیلی مظالم کو عالمی پلیٹ فارم پر بے نقاب کرنے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ عرب دنیا کے کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حملے کی شدید مذمت کر چکی ہیں اور اسے نہ صرف قطر کی خودمختاری پر حملہ بلکہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے خلاف ایک کھلا وار قرار دے رہی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس عالمی ضمیر کا امتحان بھی ہے۔ اگر انسانی حقوق کونسل اسرائیلی جارحیت کے خلاف مؤثر مؤقف اختیار کرتی ہے تو یہ فلسطینی عوام کی حمایت کےلیے ایک بڑی اخلاقی جیت ہوگی۔ بصورت دیگر دنیا پر یہ تاثر مزید گہرا ہو جائے گا کہ بین الاقوامی ادارے طاقتور ریاستوں کے آگے بے بس ہیں۔

اس اجلاس کے فیصلے آئندہ خطے کی سیاسی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یمن کا اسرائیل پر میزائل حملہ، نیتن یاہو کا طیارہ ہنگامی لینڈنگ پر مجبور
  • اسرائیلی فضائیہ کا یمن کی بندرگاہ حدیدہ پر حملہ، بارہ بمباریوں کی تصدیق
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا، امریکی میڈیا
  • اسرائیل نے قطر پر حملے کی مجھے پیشگی اطلاع نہیں دی، دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرئیلی وزیراعظم سے ملاقات : اسرائیل بہترین اتحاد ی، امریکی وزیرخارجہ: یاہوکی ہٹ دھرمی برقرار‘ حماس پر پھر حملوں کی دھمکی
  • دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی  درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج
  • اسرائیلی وزیراعظم کی حماس رہنماؤں پر مزید حملے کرنے کی دھمکی
  • حماس جہاں بھی ہو، ہم اُسے نشانہ بنائیں گے، نتین یاہو
  • مارکو روبیو کے اسرائیل پہنچتے ہی غزہ پر حملوں میں شدت آگئی