1965ء جنگ کے ہیرو میجر عزیز بھٹی شہید کا یوم شہادت آج منایا جا رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
پاک فوج کے عظیم سپوت اور جنگ ستمبر1965 کے ہیرو میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) کا یوم شہادت آج منایا جا رہا ہے۔
6 اگست 1928 میں ہانگ کانگ میں پیدا ہونے والے راجا عزیز بھٹی کے خاندان نے قیام پاکستان سے قبل ضلع گجرات میں اپنے آبائی گاؤں لدیاں میں سکونت اختیار کرلی، راجا عزیز بھٹی نے 21 جنوری 1948 کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی۔
1950 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ میں انہیں بہترین کارکردگی پرشہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزازکے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا گیا۔
راجا عزیز بھٹی 1952 میں اعلیٰ فوجی ٹریننگ کے لیے کینیڈا بھی گئے۔ انہوں نے 1957 سے 1959 تک جی ایس سیکنڈ آپریشنز کی حیثیت سے جہلم اور کوہاٹ میں خدمات انجام دیں۔
1960 سے 1962 تک پنجاب رجمنٹ جب کہ 1962 سے 1964 تک انفنٹری اسکول کوئٹہ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے جنوری 1965 سے مئی 1965 تک سیکنڈ کمانڈ کے طورپر خدمات سرانجام دیں - 1965 کی جنگ میں راجا عزیز بھٹی کو بی آر بی نہر کے کنارے پر بہ حیثیت کمپنی کمانڈر تعینات کیا گیا مگر انہوں نے اپنے لیے او پی کی ذمہ داری سنبھالی۔
جہاں کئی دن تک بھوکے پیاسے رہ کر وہ مسلسل دشمنوں کا منہ توڑ مقابلہ کرتے رہے۔ دشمنوں کو شدید جانی اور جنگی سازوسامان کا نقصان اُٹھانا پڑا۔ راجا عزیز بھٹی کے وارسے بھارت کے دو ٹینک بھی تباہ ہوئے اوردشمن تازہ ترین کمک اور وافر اسلحہ ہونے کے باوجود ایک قدم آگے نہ بڑھ سکا۔
12ستمبر کی صبح طلوع عزیزبھٹی نے دیکھا کہ دشمن کی فوج کے ہزاروں سپاہی برکی سے شمال کی طرف درختوں کے پیچھے چُھپے ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ نہر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عزیز بھٹی نے فائرنگ شروع کردی۔
جس سے وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ میجر عزیز بھٹی دوبارہ نہر کی پٹری پرچڑھ کر دشمن کی نقل وحرکت کا جائزہ لینے لگے کہ دشمن نے بمباری شروع کردی۔ اپنے محاذ پر ڈٹے عزیز بھٹی ہر خطرے سے بے نیاز دشمن کا مقابلہ کررہے تھے کہ ایک گولہ ان کے سینے سے آرپار ہوگیا انہوں نے وہیں ملک وقوم کی آبرو کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔
مادر وطن کے لئے اپنی جان نثار کرنے پر میجر عزیز بھٹی کو 23 مارچ 1966 کو پاکستان کا سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
آج برسی پر شہید کی آخری آرام گاہ پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی اور فاتحہ خوانی کی جائے گی۔
افواج پاکستان نے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر کی 60 ویں برسی کے موقع پر ان کی لازوال قربانی اور غیر معمولی بہادری کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، جنرل ساحر شمشاد مرزا (چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی)، ایڈمرل نوید اشرف (چیف آف نیول اسٹاف) اور ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو (چیف آف ائیر اسٹاف) نے مشترکہ طور پر میجر عزیز بھٹی شہید کی قربانی کو قوم کے لیے جرات، عزم، ایمان اور قومی وفاداری کی روشن مثال قرار دیا۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 1965 کی جنگ کے دوران میجر عزیز بھٹی شہید نے لاہور کے قریب برکی سیکٹر کا جرات مندی سے دفاع کرتے ہوئے مسلسل پانچ دن اور راتیں دشمن کے شدید حملوں کے خلاف فولادی دیوار بنے رہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میجر عزیز بھٹی شہید راجا عزیز بھٹی انہوں نے
پڑھیں:
نواز شریف کی خواہش پر بسنت کا تہوار لاہور میں منایا جائے گا؟
بسنت لاہور کا روایتی تہوار ہے جو بہار کی آمد پر منایا جاتا تھا، لوگ چھتوں پر جمع ہوتے، رنگ برنگی پتنگیں اڑاتے، موسیقی بجتی اور کھانوں کا اہتمام ہوتا۔ یہ خوشی اور اتحاد کا دن ہوتا تھا۔ تاہم، خطرناک ڈوروں سے ہونے والے حادثات کی وجہ سے 2007 کے بعد سے لاہور میں بسنت پر مکمل پابندی ہے۔ 18 سال سے یہ تہوار نہیں منایا گیا۔ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف چاہتے ہیں کہ پنجاب میں نہ سہی لاہور میں بسنت ضرور ہو۔ نواز شریف اس وقت اولڈ ہیریٹیج ریوائیول کے پیٹرن اِن چیف بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں بسنت کا تہوار منانے کی اجازت دینے پر غور، شرائط کیا ہوسکتی ہیں؟
سابق ڈی جی والڈ سٹی اتھارٹی کامران لاشاری نے کچھ ماہ قبل وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بسنت کروانا چاہتے ہیں۔ ایس او پیز بنائے جارہے ہیں۔ بسنت کروانے میں زیادہ کام پولیس کا ہے، پولیس ہی ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑے اور دھاتی ڈور کے استعمال کو روکے، لیکن اب پنجاب حکومت محفوظ بسنت کے نام سے یہ تہوار منانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پنجاب حکومت نے لاہور میں بسنت تہوار کی محدود بحالی کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ یہ تہوار فروری 2026 میں دو دن (ہفتہ اور اتوار) منائے جانے کا امکان ہے لیکن صرف لاہور کے مخصوص علاقوں میں یہ تہوار منایا جاسکے گا۔
حکومت نے پتنگ بازی کے لیے قانون میں ترامیم کا نیا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے جو پنجاب پروبیشن آف کائٹ فلائنگ آرڈیننس 2001ء کے تحت ترمیم شدہ ہے۔ ترمیم شدہ ڈرافٹ کے مطابق پتنگ بنانے والوں کی رجسٹریشن لازمی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں بسنت کی ہرگز اجازت نہیں، پتنگ بازی کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور
مینوفیکچررز کے لیے رجسٹریشن فیس 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ تجدید کے لیے 2 ہزار 500 روپے فیس رکھی گئی ہے۔ پتنگ فروشوں کے لیے رجسٹریشن فیس 15 ہزار اور تجدید کی فیس 1 ہزار 500 روپے مقرر کی گئی ہے۔ کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشنز کے لیے رجسٹریشن فیس 50 ہزار اور تجدید فیس 5 ہزار مقرر کی گئی ہے۔
محفوظ پتنگ بازی کے لیے مخصوص شرائط و ضوابط پر عمل درآمد لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بڑی پتنگ، دھاتی یا شیشے والی ڈور کے استعمال پر سخت پابندی برقرار رہے گی۔ خاص طور پر دھاتی ڈور کے استعمال پر سزا کے طور پر جیل کی سزا دی جائے گی۔
بسنت کی تقریبات اب صرف اندرونِ لاہور تک محدود نہیں رہیں گی، بسنت کے لیے جن مقامات کے نام تجویز کیے گئے ہیں ان میں والڈ سٹی، ریس کورس، ماڈل ٹاؤن اور جلو پارک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پی سی ہوٹل، آواری ہوٹل اور فلیٹیز ہوٹل کی چھتوں پر بھی پتنگ بازی کی اجازت دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف اور مریم نواز بسنت کروانا چاہتے ہیں، کامران لاشاری
سیکریٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ انسانی جانوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، لہٰذا خطرناک پتنگ بازی کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم، کنٹرولڈ ماحول میں بسنت کی مشروط اجازت زیرِغور ہے۔
پتنگ بازی خطرناک کھیل ہے
پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی کہتے ہیں کہ بسنت اب ایک خونی کھیل بن چکی ہے۔ ڈور پھیرنے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ دھاتی ڈور کے استعمال سے کئی لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں۔
چند دن پہلے لاہور میں نواز شریف کے اپنے حلقے میں ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار پر تھا، اس کے گلے میں ڈور پھرنے سے اس کی جان چلی گئی۔ حکومت اگلے سال بسنت کروانے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ ایس او پیز بھی بنائے جارہے ہیں تاکہ محفوظ بسنت منائی جاسکے، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے بسنت کا تہوار منانے کے حق میں نہیں ہیں۔
پاکستان کائٹ ایسوسی ایشن کے صدر شکیل شیخ کا کہنا ہے کہ بسنت ضرور منائی جانی چاہیے۔ اس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ یہ تہوار لاہور کی شناخت کو بحال کرے گا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر محفوظ ڈور کے استعمال کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بسنت کے تہوار کا دوبارہ آغاز ہوگا۔
دوسری جانب حکومتی ذرائع کے مطابق بسنت کے حوالے سے حتمی فیصلہ دسمبر میں ہوگا۔ اگر سب ٹھیک رہا تو 18 سال بعد لاہور کا آسمان ایک بار پھر پتنگوں سے رنگین ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بسنت پتنگ پنجاب کامران لاشاری لاہور نواز شریف وزیراعلیٰ مریم نواز