امریکی نیول اکیڈمی میں لاک ڈاؤن، فائرنگ سے طالب علم زخمی
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر این اپولس میں قائم یو ایس نیول اکیڈمی بدھ کی شام اچانک لاک ڈاؤن کر دی گئی جب حکام کو ایک ممکنہ خطرے کی اطلاع ملی۔
لاک ڈاؤن کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں ایک طالب علم زخمی ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں:چارلی کرک کے قتل پر خوشی منانے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، امریکی نائب وزیر خارجہ
اطلاعات کے مطابق ایک طالب علم نے مبینہ طور پر ایک قانون نافذ کرنے والے اہلکار کو مشکوک سمجھتے ہوئے تربیتی ہتھیار سے حملہ کیا، جس پر اہلکار نے جوابی فائرنگ کی۔
زخمی طالب علم کو فوری طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اس کی حالت کو مستحکم قرار دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر فائرنگ کی آوازوں اور خطرے کی اطلاع پر اکیڈمی کو لاک ڈاؤن کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:چارلی کرک کے قاتل کی تلاش ، اطلاع دینے والے کو کتنا انعام ملے گا؟
تاہم بعد ازاں تفتیش میں یہ واضح ہو گیا کہ کوئی فعال حملہ آور موجود نہیں تھا۔ اس کے باوجود طلبہ اور عملے کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔
ترجمان نیول اکیڈمی نے وضاحت کی کہ لاک ڈاؤن محض احتیاطی اقدام کے طور پر نافذ کیا گیا تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو قابو میں لایا جا سکے۔
شہری حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اعلان کیا ہے کہ صورتحال اب مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ریاست میری لینڈ فائرنگ لاک ڈاؤن نیول اکیڈمی یو ایس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ریاست میری لینڈ فائرنگ لاک ڈاؤن نیول اکیڈمی یو ایس نیول اکیڈمی لاک ڈاؤن طالب علم
پڑھیں:
امریکا کا فلسطین نواز طالبِ علم محمود خلیل کو جلاوطن کرنے کا حکم
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی ریاست لوئزیانا کی ایک امیگریشن عدالت نے فلسطین نواز احتجاجی رہنما اور کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق خلیل کو الجزائر یا متبادل طور پر شام بھیجا جائے گا۔
عرب نیوز کے مطابق امیگریشن جج جیمی کومانز نے 12 ستمبر کو جاری کیے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ خلیل نے گرین کارڈ کی درخواست پر دانستہ طور پر بعض اہم حقائق چھپائے اور ’یہ عمل محض لاعلمی یا غفلت نہیں بلکہ جان بوجھ کر کی گئی غلط بیانی تھی، جس کا مقصد امیگریشن عمل کو دھوکہ دینا اور درخواست کے مسترد ہونے کے امکانات کو کم کرنا تھا۔‘ جج نے مزید کہا کہ اگر ایسی غلط بیانی کے باوجود رعایت دی جائے تو مستقبل کے درخواست گزار بھی یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوں گے۔
کومانز نے خلیل کی وہ درخواست بھی مسترد کر دی جس میں انہوں نے ملک بدری سے استثنیٰ دینے کی اپیل کی تھی۔ عدالت کے مطابق ’یہ اقدام مستقبل کے درخواست گزاروں کے لیے غلط پیغام ہوگا۔‘
دوسری جانب خلیل کی قانونی ٹیم نے نیو جرسی کی ایک فیڈرل کورٹ کو خط جمع کرا دیا ہے، جس میں جج کومانز کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کے وکلاء نے کہا ہے کہ اپیل دائر کی جائے گی اور قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔
امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU)، جو اس مقدمے میں خلیل کی نمائندگی کر رہی ہے، نے عدالت کے الزامات کو ”بے بنیاد اور انتقامی“ قرار دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق ”misrepresentation“ یعنی غلط بیانی کے یہ الزامات دراصل خلیل کی حراست کے بعد انتقامی بنیادوں پر شامل کیے گئے۔
محمود خلیل نے اپنے ردعمل میں کہا: ”یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میری آزادیِ اظہار کی سزا دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ان کی تازہ ترین کارروائی، کانگرو کورٹ کے ذریعے، ان کے اصل عزائم کو ایک بار پھر ظاہر کرتی ہے۔“
انہوں نے مزید کہا: ”جب ان کی پہلی کوشش ناکام ہونے لگی تو انہوں نے مجھے خاموش کرانے کے لیے جھوٹے اور مضحکہ خیز الزامات گھڑ لیے۔ لیکن ایسے ہتھکنڈے مجھے اپنی قوم کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے اور فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے سے روک نہیں سکتے۔“
یاد رہے کہ محمود خلیل امریکا کے قانونی مستقل رہائشی ہیں، ان کی شادی ایک امریکی شہری سے ہوئی ہے اور ان کا ایک بیٹا بھی امریکا میں پیدا ہوا ہے۔ رواں سال مارچ میں انہیں امیگریشن حکام نے تین ماہ تک حراست میں رکھا تھا، بعد ازاں جون میں رہا کیا گیا، مگر وہ مسلسل ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
خلیل کا تعلق کولمبیا یونیورسٹی سے رہا ہے، خلیل ملک گیر فلسطین نواز احتجاجی تحریک کے نمایاں رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ وہ ملک بھر میں فلسطین نواز کیمپس احتجاجات کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
Post Views: 4