ایمان مزاری کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس سے مکالمے کی فوٹیج محفوظ کرنے کی درخواست WhatsAppFacebookTwitter 0 13 September, 2025 سب نیوز


اسلام آباد:انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری-حاضر نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے رجسٹرار کو رواں ہفتے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کے ساتھ مکالمے کے دوران خود کے ساتھ پیش آنے والے ’افسوسناک واقعے‘ کی سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ کرنے کی درخواست جمع کرادی۔

اپنی درخواست ایمان زینب مزاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر بھی شیئر کی، انہوں نے کہا کہ میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں تاکہ معزز چیف جسٹس کی عدالت نمبر 1 کی 11 ستمبر 2025 کی صبح 9 بجے سے 11 بجے تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ کی جائے، کیونکہ اس دوران میرے ساتھ ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ ضروری ہے کہ مکالمے کی ریکارڈنگ محفوظ کی جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ میں یہ بھی گزارش کروں گی کہ مذکورہ تاریخ اور وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ایک کاپی مجھے فراہم کی جائے، جس کے لیے میں نے اس درخواست کے ساتھ ایک یو ایس بی منسلک کی ہے۔

ایمان زینب مزاری نے اپنی درخواست میں جن عدالتی کارروائیوں کا حوالہ دیا، وہ جمعرات کے روز کی سماعت کی ہیں، جب وہ اپنے مؤکل کی نمائندگی کر رہی تھیں، جس نے آئی ایچ سی کے چیف جسٹس ڈوگر کی عدالت میں انسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی استدعا کی تھی۔

سماعت کے دوران جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایمان زینب مزاری کو توہین عدالت کی کارروائی سے خبردار کیا اور اطلاع کے مطابق یہاں تک کہا کہ وہ انہیں ’پکڑوا بھی سکتے ہیں‘۔

ایمان مزاری نے مؤقف اپنایا کہ وہ محض اپنا پیشہ ورانہ فریضہ ادا کر رہی ہیں اور اگر عدالت ضروری سمجھے تو وہ توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اگلے ہی روز ایک اور مقدمے کی سماعت کے دوران، جسٹس سرفراز ڈوگر نے وضاحت پیش کی تھی کہ ان کے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، انہوں نے یہ بھی تردید کی کہ انہوں نے کبھی ’پکڑوا دینے‘ جیسا کچھ کہا۔

اس دعوے کو ایمان مزاری کے شوہر ہادی علی چٹھہ نے بھی چیلنج کیا، وہ بھی جمعرات کی سماعت میں شریک تھے۔

اپنی وضاحت میں جسٹس سرفراز ڈوگر نے یہ بھی کہا کہ ایمان مزاری ان کے لیے بیٹی کی مانند ہیں اور وہ صرف انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں انہیں ایسے سمجھا رہا تھا جیسے کسی بچے کو سمجھاتا ہوں، مگر وہ بات نہیں سمجھ رہی تھیں، وہ بار بار بنیادی حقوق کا ذکر کر رہی تھیں، کیا اس عدالت کے اپنے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہیں؟

ان کے ان ریمارکس نے ملک کی قانونی برادری اور خود ایمان مزاری کی طرف سے تنقید کو جنم دیا، جنہوں نے ان کے بیانات کو ’صنفی طور پر امتیازی‘ قرار دیا۔

متعدد وکلا تنظیموں اور بار ایسوسی ایشنز نے آئی ایچ سی کے چیف جسٹس کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے، اور کچھ نے تو ان کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس مکالمے کی سخت مذمت کی اور کہا کہ وکلا عدالت کے افسر ہوتے ہیں اور ان کی عزت و وقار کو بھی ترجیح دی جانی چاہیے، جیسے معزز جج صاحبان کی عزت کو دی جاتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ بار نے سپریم جوڈیشل کونسل سے جسٹس سرفراز ڈوگر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

یہ مطالبہ بلوچستان بار کونسل نے بھی دہرایا، جب کہ کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) نے جسٹس ڈوگر کے انتہائی نامناسب رویے کی سخت مذمت کی۔

ویمنز ایکشن فورم نے بھی جج کے مبینہ ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان انتہائی قابلِ اعتراض پدرشاہی، خواتین دشمن، صنفی تعصب پر مبنی ریمارکس، رویے اور وکیل کے شوہر کو مخاطب کرنے میں استعمال ہونے والی سرپرستانہ ’زبان‘ کی مذمت کی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعدلیہ کو انصاف فراہم کرنے کے سفر میں چیلنجز کا سامنا ہے: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی عدلیہ کو انصاف فراہم کرنے کے سفر میں چیلنجز کا سامنا ہے: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کا امکان، قیمت میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے؟ ’ججوں کے میٹر چالو رہتےہیں‘، خواجہ آصف اور سعد رفیق اشرافیہ کی مراعات پر پھٹ پڑے حکومت نے آئی ایم ایف سے سیلاب متاثرین کے بجلی بل 3 ماہ کیلئے مؤخر کرنے کی درخواست کردی اگر میئر بنا تو نیتن یاہو کی نیویارک آمد پر گرفتاری کا حکم دوں گا، زہران ممدانی حسان نیازی کی ملٹری کورٹ کارروائی کیخلاف درخواست سماعت کےلئے مقرر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ایمان زینب مزاری جسٹس سرفراز ڈوگر کرنے کی درخواست ایمان مزاری فوٹیج محفوظ اسلام ا باد مکالمے کی چیف جسٹس انہوں نے کرنے کے کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکتے ہوئے سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے فیصلہ تک بطور جج کام کرنے سے روکنے کا حکم دیدیا اور سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ اور اشتر علی اوصاف کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کرلی۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کے خلاف میاں داؤد کی درخواست پر سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت پیش نہ ہوئے اور معاون وکیل کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔ اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے، ایسی درخواستوں سے خطرناک ٹرینڈ قائم ہوگا، سپریم کورٹ کے دو فیصلے اس حوالے سے موجود ہیں، لہٰذا اس درخواست پر اعتراضات برقرار رہنے چاہئیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حق سماعت کسی کا بھی حق ہے لیکن ہمیں آفس کے اعتراضات کو دیکھنا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟، عدالت نے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہونے کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک سماعت ملتوی کر دی۔ اسلام آباد بار کونسل نے ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے معاملے پر آج بدھ کو ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے جنرل باڈی اجلاس بھی طلب کرلیا۔ حکمنامہ کے بعد ججز کا نیا ڈیوٹی روسٹر جاری کردیا گیا۔ نئے ڈیوٹی روسٹر میں جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل نہیں ہیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری کا ڈویژن بینچ اور سنگل بنچ بھی ختم کردیا گیا۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اعظم خان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے، جسٹس اعظم خان کی اسلام آباد جوڈیشل سروس میں مستقلی اور بعد ازاں ترقی غیرقانونی ہے۔ جبکہ رولز کے تحت صرف وہی ججز مستقل کیے جا سکتے تھے جو پہلے سے اسلام آباد جوڈیشل سروس میں کام کر رہے تھے۔ بعد میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے ججز کو مستقل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کر لی گئی ہے۔واضح رہے مذکورہ کیس میں فاضل جج کی تعلیمی اسناد کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جسٹس طارق جہانگیری کی سماعت کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ حصول کی درخواست دائر
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود کو بطور جج کام کرنے سے روک دیا گیا
  • ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے لائسنس منسوخی کے لیے ریفرنس دائر
  • جسٹس سرفراز ڈوگر کیخلاف شکایت، ایمان مزاری نے اضافی دستاویزات جمع کرادیں
  • ای سی ایل کیس: ایمان مزاری غیر حاضر، کیس منتقل کرنے کی استدعا
  • ای سی ایل کیس میں ایمان مزاری اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش نہیں ہوئیں، سماعت ملتوی
  • ایمان مزاری کی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف شکایت ہراسمنٹ کمیٹی میں جمع
  • ایمان مزاری نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف ہراسمنٹ کمیٹی میں شکایت جمع کروادی
  • چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر