ایمان مزاری کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس سے مکالمے کی فوٹیج محفوظ کرنے کی درخواست
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری-حاضر نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے رجسٹرار کو رواں ہفتے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کے ساتھ مکالمے کے دوران خود کیساتھ پیش آنے والے ’افسوسناک واقعے‘ کی سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ کرنے کی درخواست جمع کرائی ہے۔
اپنی درخواست میں ایمان زینب مزاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھی شیئر کی، انہوں نے کہا کہ میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں تاکہ معزز چیف جسٹس کی عدالت نمبر 1 کی 11 ستمبر 2025 کی صبح 9 بجے سے 11 بجے تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ کی جائے، کیوں کہ اس دوران میرے ساتھ ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ ضروری ہے کہ مکالمے کی ریکارڈنگ محفوظ کی جائے۔
Submitted application today seeking preservation of CCTV footage from Islamabad High Court Courtroom No.
— Imaan Zainab Mazari-Hazir (@ImaanZHazir) September 13, 2025
درخواست میں کہا گیا ہے کہ میں یہ بھی گزارش کروں گی کہ مذکورہ تاریخ اور وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ایک کاپی مجھے فراہم کی جائے، جس کے لیے میں نے اس درخواست کے ساتھ ایک یو ایس بی منسلک کی ہے۔
ایمان زینب مزاری نے اپنی درخواست میں جن عدالتی کارروائیوں کا حوالہ دیا، وہ جمعرات کے روز کی سماعت کی ہیں، جب وہ اپنے مؤکل کی نمائندگی کر رہی تھیں، جس نے آئی ایچ سی کے چیف جسٹس ڈوگر کی عدالت میںانسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی استدعا کی تھی۔
سماعت کے دوران جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایمان زینب مزاری کو توہین عدالت کی کارروائی سے خبردار کیا اور اطلاع کے مطابق یہاں تک کہا کہ وہ انہیں ’پکڑوا بھی سکتے ہیں‘۔
ایمان مزاری نے مؤقف اپنایا کہ وہ محض اپنا پیشہ ورانہ فریضہ ادا کر رہی ہیں اور اگر عدالت ضروری سمجھے تو وہ توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اگلے ہی روز ایک اور مقدمے کی سماعت کے دوران، جسٹس سرفراز ڈوگر نے وضاحت پیش کی کہ ان کے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، انہوں نے یہ بھی تردید کی کہ انہوں نے کبھی ’پکڑوا دینے‘ جیسا کچھ کہا۔
اس دعوے کو ایمان مزاری کے شوہر ہادی علی چٹھہ نے بھی چیلنج کیا، وہ جو جمعرات کی سماعت میں بھی شریک تھے۔
اپنی وضاحت میں جسٹس سرفراز ڈوگر نے یہ بھی کہا کہ ایمان مزاری ان کے لیے بیٹی کی مانند ہیں اور وہ صرف انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں انہیں ایسے سمجھا رہا تھا جیسے کسی بچے کو سمجھاتا ہوں، مگر وہ بات نہیں سمجھ رہی تھیں، وہ بار بار بنیادی حقوق کا ذکر کر رہی تھیں، کیا اس عدالت کے اپنے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہیں؟۔
ان کے ان ریمارکس نے ملک کی قانونی برادری اور خود ایمان مزاری کی طرف سے تنقید کو جنم دیا، جنہوں نے ان کے بیانات کو ’صنفی امتیازی‘ قرار دیا۔
متعدد وکلا تنظیموں اور بار ایسوسی ایشنز نے آئی ایچ سی کے چیف جسٹس کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے، اور کچھ نے تو ان کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس مکالمے کی سخت مذمت کی اور کہا کہ وکلا عدالت کے افسر ہوتے ہیں اور ان کی عزت و وقار کو بھی ترجیح دی جانی چاہیے، جیسے معزز جج صاحبان کی عزت کو دی جاتی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار نے سپریم جوڈیشل کونسل سے جسٹس سرفراز ڈوگر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
یہ مطالبہ بلوچستان بار کونسل نے بھی دہرایا، جب کہ کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) نے جسٹس ڈوگر کے انتہائی نامناسب رویے کی سخت مذمت کی۔
ویمنز ایکشن فورم نے بھی جج کے مبینہ ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان انتہائی قابلِ اعتراض پدرشاہی، خواتین دشمن، صنفی تعصب پر مبنی ریمارکس، رویے اور وکیل کے شوہر کو مخاطب کرنے میں استعمال ہونے والی سرپرستانہ ’زبان‘ کی مذمت کی۔
Post Views: 6ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس سرفراز ڈوگر ایمان زینب مزاری ایمان مزاری انہوں نے چیف جسٹس کہا کہ
پڑھیں:
جج کیخلاف ہی کیس کردیا! ایمان مزاری اور چیف جسٹس کے درمیان تنازعہ کی وجہ جانتے ہیں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انسانی حقوق کی کارکن اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کے خلاف ہراسانی کی باضابطہ شکایت درج کرا دی ہے۔
یہ شکایت اسلام آباد ہائیکورٹ کی ورک پلیس ہراسمنٹ کمیٹی میں جمع کرائی گئی ہے، جس کی سربراہی جسٹس ثمن رفت امتیاز کر رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ شکایت ایک عدالت کے معاون کے ذریعے جمع کروائی گئی۔
واقعہ گزشتہ جمعرات کو پیش آیا جب چیف جسٹس ڈوگر نے ایمان مزاری کو مبینہ طور پر “ڈکٹیٹر” کہنے پر توہینِ عدالت کی کارروائی کی وارننگ دی اور یہاں تک کہا کہ انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہی تھیں، اور اگر عدالت مناسب سمجھے تو وہ توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے مطابق عدالت میں کچھ سخت الفاظ بھی استعمال ہوئے تھے۔
اپنی درخواست میں ایمان مزاری نے مؤقف اپنایا کہ چیف جسٹس کا رویہ ان کے ساتھ غیر دوستانہ، امتیازی، دھمکی آمیز اور غیر معقول تھا، جو خواتین کے خلاف ہراسگی کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس کو ہراسانی کا مرتکب قرار دے کر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جائے۔
ایمان مزاری نے اپنی درخواست کی کاپی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھی شیئر کی۔