Daily Mumtaz:
2025-11-03@01:54:20 GMT

کیا آپ سموسے کی حقیقت سے واقف ہیں؟ یہ تکون ہی کیوں ہوتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT

کیا آپ سموسے کی حقیقت سے واقف ہیں؟ یہ تکون ہی کیوں ہوتا ہے؟

شام کی ہلکی ہلکی بھوک میں اگر چائے کے ساتھ گرم گرم سموسہ بھی مل جائے تو کیا ہی بات ہو، دنیا کے کئی ممالک میں سموسہ یکساں طور پر مقبول ہے۔

سموسہ کھاتے ہوئے کبھی اس بات کا خیال آیا کہ سموسہ تکون کیوں ہوتا ہے؟ یہ سموسہ آیا کہاں سے ہے اور اس کے ذائقے کے پیچھے کون سے بڑے اور اہم راز پوشیدہ ہیں؟

اے آر وائی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ سموسہ کوئی نیا نہیں، بلکہ صدیوں پرانی سوغات ہے
سموسہ پاکستان یا بھارت کی پیدا وار نہیں یہ بلکہ مشرق وسطیٰ سے بر صغیر میں آیا تھا، یعنی جب ہمارے آباؤ اجداد کہتے تھے حضور سموسہ کھائیں نا تو وہ کہیں دور کے دیس کی کہانی سنا رہے ہوتے تھے۔

اس کا ذکر ملا ہمیں ایرانی مورخ ابوالفضل بیہقی کی کتاب میں ملتا ہے جہاں اسے ’سمبوسہ‘ کہتے تھے۔وہ سموسے ایسے چھوٹے چھوٹے تھے کہ مسافر ان کو اپنے تھیلے میں رکھ کر میلوں دور کا سفر طے کیا کرتے تھے۔

مختلف علاقوں میں الگ الگ طرح کے سموسے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی بازار میں مختلف دکانوں پر ملنے والے سموسوں کے ذائقہ میں کافی فرق ہوتا ہے۔

یعنی آج کا “ٹیک اَے وے” تو اس زمانے میں تھیلے میں سموسہ تھا، امیر خسرو، ابنِ بطوطہ اور مغل بادشاہوں تک نے اسے کھایا،جناب یہ اس دور کا وی آئی پی ری فریشمنٹ تھا۔

اب اگر آپ کو لگتا ہے کہ سموسہ صرف آلو والا ہوتا ہے، تو آپ کی غلط فہمی ہے، پاکستان میں سموسے بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ سموسے کے اور بھی کئی کزنز ہیں، جن میں قیمہ، چکن، چیز، حتیٰ کہ کریمی اور چاٹ والے سموسے بھی دستیاب ہیں۔

سموسہ جب تکونی شکل میں آتا ہے تو سمجھو یہ جانتا ہے کہ بھائی! مجھے اچھی طرح بند رکھو، کہیں فرائی کرتے ہوئے نہ پھٹ جاؤں!

شاید یہی وجہ ہے کہ سموسہ ہمیشہ تکون ہوتا ہے کیونکہ گول یا چکور ہوتا تو تیاری کے دوران پھٹ جاتا۔ جس سے بنانے ولے کی محنت ضائع ہوسکتی تھی۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ہوتا ہے

پڑھیں:

بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟

بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس ختم کردی گئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت جمعرات کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے اور پولیس نظام کو مزید فعال اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے مؤثر بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر خان، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون، پرنسپل سیکریٹری بابر خان اور اعلیٰ پولیس حکام شریک تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی

آئی جی پولیس نے اجلاس کو بلوچستان پولیس کو درپیش چیلنجز، امن و امان کی صورتحال، جرائم کے رجحانات اور آپریشنل ضروریات پر بریفنگ دی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کے عمل کو منظم اور تیز کیا جائے گا، جبکہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے درمیان رابطہ اور انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیوں کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ اور لیگل برانچ کے کردار کو بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں بہتری لائی جا سکے۔

وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے تمام ’بی ایریا‘ کو مرحلہ وار ’اے ایریا‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں 10 ارب روپے کی مالی معاونت کی منظوری دی ہے جو پولیس کی استعداد کار، تربیت، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور خصوصی فورسز کی مضبوطی پر خرچ کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا لیویز فورس میں انسداد دہشتگردی ونگ بننے جارہا ہے؟

وزیرِ اعلیٰ کے مطابق پولیس کی فضائی نگرانی، ڈرون سسٹمز اور نائٹ آپریشن صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ حکومتی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں کو پولیس میں منتقلی کے ساتھ گولڈن ہینڈ شیک اور نئی بھرتیوں کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے تک علاقائی امن بحال رہ سکے۔

بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے لیویز کے پولیس میں انضمام کو صوبے کے لیے ایک تاریخی اور حساس تبدیلی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے تناظر میں تفصیلی خدشات، سوالات اور راہِ حل پیش کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟

ان کے مطابق لیویز کے جوان ابتدائی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کی سروس اسٹرکچر، تنخواہیں، پروموشن پالیسی، اور ریٹائرمنٹ فوائد کیا رہیں گے۔ یہ عدم وضوح فورس کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فوراً مفصل پالیسی دستاویز جاری کرنی چاہیے جس میں سروس ریکارڈ، پروموشن پاتھ، اور پے اسکیل میں واضح فرق نہیں آنے دیا جائے۔

ایک بار جب لیویز اہلکار شہری انتظامی ڈھانچے میں آئیں گے تو قبائلی یا دیہی اندازِ پولیسنگ سے شہری پولیسنگ پر منتقل ہونا ہوگا۔ اس کے لیے جامع تربیتی پروگرام، ڈیجیٹل ایف آئی آر اور عدالتی تعامل کی ٹریننگ، اور جدید تفتیشی مہارتوں کی فراہمی ضروری ہے۔

سید علی شاہ زور دیتے ہیں کہ محض کاغذ پر انضمام کافی نہیں، عملی تربیت اور مسلسل ایکسپوزر دینا ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ لیویز کے پاس پہلے ایف آئی آر درج کرنے، ثبوت محفوظ کرنے اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار کی تربیت محدود تھی۔ پولیس میں شمولیت کے بعد کرائم برانچ اور لیگل برانچ کو فوراً فعال کر کے تفتیشی معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ مقدمات عدالت میں مضبوط ہوں اور مجرمان کو سزا دلانے کا نظام فعّال ہو۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کا منصوبہ ناکام، لیویز فورس نے اسلحہ و گولہ بارود کی کھیپ پکڑی لی

بلوچستان کی جغرافیائی اور سماجی ساخت خیبرپختونخوا یا دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ سید علی شاہ نے باور کرایا کہ آئی جی اور مرکزی قیادت کو مقامی مہارت، قبائلی رواج، زبان اور ثقافتی معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دینی چاہئیں، بصورتِ دیگر آپریشنل ناکامی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔

لیویز فورس 2010 کے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔ اسے پولیس میں ضم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی ضروری ہوگی۔ اس عمل میں حکومت کو اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین کی مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں شامل کیا گیا تھا لیکن 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔

صوبے میں امن و امان کا نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، ’اے ایریا‘ (شہری علاقوں) میں پولیس ذمہ دار جبکہ ’بی ایریا‘ (دیہی و قبائلی علاقوں) میں لیویز فورس تعینات تھی۔

لیویز فورس کے پاس صوبے کا تقریباً 82 فیصد علاقہ تھا، جبکہ پولیس صرف 18 فیصد حصے میں کام کر رہی تھی۔ لیویز کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اصلاحات بلوچستان پولیس سی ٹی ڈی لیویز فورس وزیراعلی سرفراز بگٹی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • تلاش
  • پاکستانی فاسٹ بولر نے جیت ماں کے نام کر دی
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
  • سوشل میڈیا پر وائرل سعودی اسکائی اسٹیڈیم کا راز کھل گیا
  • بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟