دریائے سندھ میں اگلے 24گھنٹے میں 7 لاکھ کیوسک پانی کا ریلا داخل ہونے کا امکان ہے، مصطفیٰ بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
سندھ حکومت کے ترجمان مصطفیٰ بلوچ نے کہا ہے کہ دریائے سندھ میں اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران سات لاکھ کیوسک یا اس سے زائد پانی کا ریلا داخل ہونے کا امکان ہے، سندھ حکومت نے ممکنہ فلڈ کے پیش نظر بھرپور تیاری کر رکھی ہے اور متعلقہ ادارے مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔
ترجمان کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے اب تک پانچ سو اٹھائیس ریلیف کیمپس قائم کیے جا چکے ہیں جہاں متاثرہ افراد کے لیے رہائش، کھانے پینے اور طبی سہولیات کا بندوبست کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ریلیف کیمپس اور مختلف میڈیکل کیمپس میں اب تک 77 ہزار پانچ سو بارہ افراد کو طبی امداد دی گئی ہے جبکہ گیارہ لاکھ اسی ہزار سے زائد مویشیوں کا علاج بھی کیا جا چکا ہے تاکہ کسانوں اور مال مویشی پر انحصار کرنے والے خاندانوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
مصطفی بلوچ نے کہا کہ سندھ حکومت کی اولین ترجیح عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے، اس سلسلے میں کچے میں رہائش پذیر افراد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوراً محفوظ مقامات یا رہلیف کیمپس میں منتقل ہو جائیں تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں ضلعی انتظامیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے اور مقامی انتظامیہ کے تعاون سے لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے ایک خصوصی مانیٹرنگ سیل قائم کیا ہے جو سیلابی صورتحال پر چوبیس گھنٹے نظر رکھے ہوئے ہے، یہ سیل ضلعی انتظامیہ، پی ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور وزیراعلیٰ سندھ سمیت کابینہ کے اراکین بھی صورتحال کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں، تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں تاکہ متاثرین کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جا سکے۔
مصطفی بلوچ نے کہا کہ سندھ حکومت دن رات عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں مصروف ہے اور اس مشکل وقت میں کسی کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ حکومت نے کہا ہے اور جا سکے
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
ایک تازہ بین الاقوامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) معطل کیے جانے کے بعد پاکستان کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سڈنی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’اکولوجیکل تھریٹ رپورٹ 2025‘ کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت کو دریائے سندھ اور اس کی مغربی معاون ندیوں کے بہاؤ پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے، جو براہِ راست پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی نے یہ معاہدہ رواں سال اپریل میں پاہلگام حملے کے بعد جوابی اقدام کے طور پر معطل کیا تھا۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان کی زراعت کا تقریباً 80 فیصد انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ معمولی رکاوٹیں بھی پاکستان کے زرعی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ ملک کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت ہے، موجودہ ڈیم صرف 30 دن کے بہاؤ تک پانی روک سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے بہاؤ میں تعطل پاکستان کی خوراکی سلامتی اور بالآخر اس کی قومی بقا کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ اگر بھارت واقعی دریاؤں کے بہاؤ کو کم یا بند کرتا ہے، تو پاکستان کے ہرے بھرے میدانی علاقے خصوصاً خشک موسموں میں، شدید قلت کا سامنا کریں گے۔
مزید بتایا گیا کہ مئی 2025 میں بھارت نے چناب دریا پر سلال اور بگلیہار ڈیموں میں ’ریزروائر فلشنگ‘ آپریشن کیا جس کے دوران پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ اس عمل سے چند دن تک پنجاب کے کچھ علاقوں میں دریا کا بہاؤ خشک ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کو اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا اختیار پاکستان کو دیا گیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگوں کے باوجود برقرار رہا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق، 2000 کی دہائی سے سیاسی کشیدگی کے باعث اس معاہدے پر عدم اعتماد بڑھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران مشرقی دریاؤں کے مکمل استعمال کی کوششوں کے ساتھ، پاہلگام حملے کے بعد بھارت نے معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا۔
پاکستان کی جانب سے اس اقدام پر شدید ردِعمل دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان کے پانیوں کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔
جون 2025 میں بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بیان دیا کہ سندھ طاس معاہدہ اب مستقل طور پر معطل رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں