ملک میں ٹک ٹاک پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
پنجاب اسمبلی میں ٹک ٹاک پر مکمل پابندی عائد کرنے کی قرارداد جمع کرا دی گئی۔
قرارداد صوبائی اسمبلی کے اپوزیشن رکن اسمبلی فرخ جاوید مون نے پیش کی جس میں وفاقی حکومت سے پاکستان میں ٹک ٹاک پر مکمل پابندی عائد کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
جمع کروائی گئی قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ پاکستان میں ٹک ٹاک مافیا لائیو چیٹ کے ذریعے فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے جو نوجوان نسل بالخصوص بچوں کو بےحیائی کی طرف راغب کر رہا ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آپس میں فحش گفتگو کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو غیر اخلاقی حرکات پر اُکساتے ہیں، جو اسلامی معاشرتی اقدار کے سراسر منافی ہے۔
قرارداد میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ نوجوان نسل سستی شہرت اور پیسہ کمانے کے لیے ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کی جانب تیزی سے راغب ہو رہی ہے، جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی کا یہ ایوان وفاقی حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ ٹک ٹاک اور اس کے لائیو چیٹ فیچر پر فوری پابندی عائد کی جائے، تاکہ نوجوان نسل کو اخلاقی تباہی سے بچایا جا سکے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں ٹک ٹاک پر ماضی میں بھی عارضی پابندیاں لگائی جاچکی ہیں جس کی بنیادی وجوہات میں فحاشی، غیر اخلاقی مواد اور صارفین کی ذہنی و اخلاقی تربیت پر منفی اثرات شامل ہیں۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: میں ٹک ٹاک پر
پڑھیں:
طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی
افغانستان کی طالبان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کئی صوبوں میں انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے تاکہ غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کی جا سکے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پہلے مرحلے میں انٹرنیٹ پابندی شمالی افغانستان کے پانچ بڑے صوبوں قندوز، بدخشاں، بغلان، تخار اور بلخ میں نافذ العمل ہوگی۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی فی الحال صرف فائبر آپٹک انٹرنیٹ کنکشنز پر ہوگی موبائل فون کے ڈیٹا پیکجز کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولت فی الحال دستیاب رہے گی۔
طالبان حکام کی جانب سے کاری سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان صوبوں میں فائبر کنکشن منقطع کر دیے گئے ہیں۔ جس کے باعث گھروں، دفاتر اور کاروباری مراکز میں انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہوگا۔
طالبان حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ضروریات کے لیے متبادل فراہم کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس طالبان نے اخلاقی ضابطوں پر مشتمل قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت خواتین کے لیے چہرہ ڈھانپنا اور مردوں کے لیے داڑھی رکھنا لازمی جب کہ عوامی مقامات پر موسیقی چلانے پر پابندی لگائی گئی تھی۔
طالبان نے 2021 کو اگست کے وسط میں افغانستان کا اقتدار سنبھالا اور تب سے خواتین کے ملازمتوں اور لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں پر پابندی عائد ہے۔
ملک میں خواتین کے بیوٹی پارلرز بھی بند کردیئے گئے ہیں اور بڑی عمر کی لڑکیوں پر مدرسے جانے پر بھی پابندی ہے۔