گدو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب
اشاعت کی تاریخ: 16th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ گدو اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے جبکہ کوٹری پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ گدو کے مقام پر پانی کا بہاﺅ چھ لاکھ 24 ہزار کیوسک جبکہ سکھر پر پانی کا بہاﺅ پانچ لاکھ 60 ہزار کیوسک ہے۔ کوٹری پر پانی کی آمد 284,325 کیوسک اور اخراج 273,170 کیوسک ہے۔
سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبے بھر میں 3,522 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک 173027 کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے جن میں سے 469 افراد اب بھی ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ صوبے بھر میں 183 فکسڈ اور موبائل ہیلتھ سائٹس کام کر رہی ہیں جہاں اب تک تقریباً 93 ہزار افراد کو امداد فراہم کی جا چکی ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید 4 افراد جاں بحق ہوگئے، ڈوب کر مرنے والے چاروں بچے ہیں ، تعلق بلوچستان کے علاقے کوہلو سے ہے، ملک میں 26 جون سے اب تک جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد 992 جبکہ ایک ہزار 64 زخمی ہوئے.
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ 504 اموات خیبرپختونخوا میں ہوئیں، پنجاب 290 ، سندھ میں 80 افراد جاں بحق ہوئے، گلگت بلتستان میں 41 ، آزاد کشمیر 38 ، بلوچستان30 اوراسلام آباد میں 9 افراد جاں بحق ہوئے بارشوں اور سیلاب کے دوران ملک بھر اب تک 1064 افراد زخمی ہوچکے ہیں .
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہنا ہے کہ کا کہنا
پڑھیں:
پاکستان میں ذہنی امراض بڑھ گئے، گزشتہ سال 1 ہزار افراد کی خودکشی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)ذہنی امراض کے حوالے سے ہونے والی ایک کانفرنس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 فی صد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ سال مختلف ذہنی دباؤ کی وجہ سے تقریباً ایک ہزار افراد نے خودکشی کی۔کراچی میں ذہنی امراض کے حوالے سے 26ویں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ہر تین ہزار افراد (34 فی صد) میں سے ایک فرد جبکہ دنیا بھر میں 5 میں سے ایک فردکسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین میں ڈپریشن کے مسائل بہت زیادہ سامنے آرہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ خواتین کو وہ مقام نہیں مل رہا جو انکو ملنا چاہیے۔ گھریلو چپقلش کی وجہ سے خواتین شدید ڈپریشن اور انزائیٹی کا شکار رہتی ہے جبکہ نوجوان نسل میں آئس جسے دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تواتر کے ساتھ زلزے سیلابی صورتحال کی وجہ سے ہزاروں گھر بہہ جانے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بھی عوام پر ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جو نفسیاتی بیماریوں کے زمرے میں آتے ہیں۔پاکستان سائیکیٹری سوسائٹی کے صدر پروفیسر واجد علی اخوندزادہ نے بتایا کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان جبکہ ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماریکا شکار ہے۔ پاکستان میں ایک فی صد (25 لاکھ) افراد کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے اور یہ 25 لاکھ خاندان ہیں وہ ہیں جو معاشی، سیاسی، سیلابی سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 10 فی صد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں اور گزشتہ سال مختلف ذہنی دباؤ کی وجہ سے تقریباًایک ہزار افراد نے خودکشی کی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں نفسیاتی امراض پر کافی کام کرنے کی ضرورت ہے، ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی امراض کے ماہرین موجود ہیں جبکہ عالمی ادارے صحت کے مطابق 10 ہزار پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر ہوناچاہیے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 5 لاکھ 500 مریض پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر کی سہولت ہے جو ناکافی ہے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر افضال جاوید سمیت دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی ناہمواریوں، قدرتی آفات اور مختلف ڈیزاسٹر، بے روزگاری کا شکار ہیں جبکہ سرحدوں پر جنگی صورتحال نے بھی عوام کے ذہنوں میں مختلف نفسیاتی مسائل پیدا کررکھے ہیں خاص کر نوجوان نسل موجود صورتحال کی وجہ سے مایوس نظر آتی ہے۔ان ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے ان تمام صورتحال کا جائزہ لے کر موثر حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ ملک کا نوجوان ان ذہنی مسائل سے نکل سکے۔