پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء) وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری نے کہا ہے کہ پاکستان میں6ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں جن کا روایتی استعمال صدیوں پر محیط ہے جبکہ یہ قدرتی وسائل ملک کی پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روایتی جڑی بوٹیوں کے علم کا امتزاج نینو ٹیکنالوجی کے جدید سائنسی شعبے کے ساتھ ہی قدرتی ادویات کا مستقبل ہے۔
نینو ٹیکنالوجی ایک کثیرالجہتی میدان ہے جو حیاتیات، انجینئرنگ، فزکس اور کیمسٹری سمیت مختلف شعبوں کے انضمام پر مبنی ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی میں قائم یونیسکو چیئر برائے میڈیسنل اینڈ بائیو آرگینک نیچرل پراڈکٹ کیمسٹری کے زیرِ اہتمام منگل کی شامادویاتی پودوں اور نینوٹیکنالوجیکے موضوع پر منعقدہ ایک خصوصی لیکچر کے دوران کیا۔(جاری ہے)
لیکچر میں طلبا، محققین اور اساتذہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹر اور یونیسکو چیئر ہولڈر پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا شاہ نے تقریب کے آغاز میں تعارفی کلمات پیش کیے۔پروفیسر ضابطہ خان شنواری نے کہا کہ دنیا میں محفوظ، مثر اور قدرتی علاج کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور جدید سائنسی تحقیق کی بدولت روایتی علم اور حیاتیاتی تنوع کے درمیان خلا پر ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ جڑی بوٹیوں کو نینو ٹیکنالوجی کے ساتھ ملا کر معاشی اور صحت کے شعبوں میں مثبت نتائج حاصل کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہربل میڈیسن کی عالمی مارکیٹ کا حجم2030تک532ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے جبکہ دنیا بھر میں80فیصد آبادی جڑی بوٹیوں کو استعمال کرتی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح95فیصد تک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادویاتی پودوں پر تحقیق کے میدان میں صنعت بڑے پیمانے پر پیداوار کے لیے ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے جبکہ جامعات کا کردار قیمتی حیاتیاتی مرکبات کی شناخت اور استخراج پر مرکوز ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہربل کلینیکل ٹرائل انسٹیٹیوٹ کا قیام پاکستان میں جڑی بوٹیوں پر مبنی ادویات کو فروغ دینے کے مشن کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جڑی بوٹیوں پر مبنی کلینیکل ٹرائلز صحت کے شعبے میں ترقی اور شواہد پر مبنی طریقہ علاج کے فروغ کے لیے نہایت اہم ہیں۔ قرشی اور اردو یونیورسٹی کلینک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اسے فلاح و بہبود کا ایک نیا ماڈل قرار دیا۔ کینسر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دنیا بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث2015میں 88لاکھ افراد جاں بحق ہوئے، پاکستان میں2020میں صرف بریسٹ کینسر کی178,388نئے کیس رپورٹ ہوئے جبکہ تقریبا40,000خواتین ہر سال اس بیماری سے جاں بحق ہو جاتی ہیں یعنی اوسطا ہر24گھنٹوں میں109خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر آٹھویں خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ تحقیقی برادری کو چاہیے کہ وہ باہمی تعاون کے ذریعے جامع صحت اور علمی معیار کی ثقافت کو فروغ دے، اور ملک میں تشخیصی و تحقیقی صلاحیتوں کو آگے بڑھائے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جڑی بوٹیوں
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، ماہرین
پاکستان کے معدنی خزانوں میں چھپی دولت اب دنیا کی توجہ حاصل کرنے لگی ہے۔ ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو نہ صرف ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بھی بنتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع” کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے قیام کے بعد ملک میں کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا عمل تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور توقع ہے کہ 2030 تک اس شعبے کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
معدنی ترقی سے پسماندہ علاقوں میں خوشحالی ممکن
لکی سیمنٹ اور لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کی تشکیل کے بعد اب ملک میں معدنی وسائل پر سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ صرف چاغی میں تقریباً 1.3 ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کان کنی کے چند منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں تو ملک بھر میں معدنی لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے سرمایہ کاروں کی قطاریں لگ جائیں گی۔ اس شعبے کی ترقی نہ صرف دور افتادہ علاقوں میں خوشحالی لا سکتی ہے بلکہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں بھی نمایاں اضافہ ممکن ہے۔
عالمی مارکیٹ میں دھاتوں کی طلب، لیکن پاکستان کا کردار محدود
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر اس وقت دھاتوں کی شدید مانگ ہے، لیکن پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا سونا اور تانبا موجود ہے، جبکہ سونے اور تانبے کی ٹیتھان بیلٹ ترکی، ایران اور افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان تک آتی ہے، جو اسے خطے کے ایک اسٹریٹیجک مقام پر فائز کرتی ہے۔
شمس الدین کے مطابق اس وقت پاکستان کان کنی سے صرف 2 ارب ڈالر کما رہا ہے، لیکن آئندہ چند سالوں میں یہ آمدنی 6 سے 8 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، بشرطیکہ ملکی اور سیاسی استحکام برقرار رہے۔
سرمایہ کاری کا پھل دیر سے مگر فائدہ دیرپا
سمٹ میں شریک فیڈینلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لیے انشورنس اور مالیاتی اداروں کو بھی میدان میں آنا ہوگا۔ ان کے مطابق پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے معدنی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا بلکہ افرادی قوت اور وسائل کی درست منصوبہ بندی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ فوری نہیں ہوتا بلکہ اس کا پھل 10 سال کے بعد ملتا ہے، مگر یہ فائدہ دیرپا اور قومی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
Post Views: 5