بنگلہ دیش: قومی انتخابات سے قبل 'اسلامی چھاتر شیبِر‘کی کامیابی سے اسلام پسندوں کو تقویت
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) ایسے وقت جب کہ بنگلہ دیش میں اگلے سال قومی انتخابات ہونے والے ہیں، ملک کی دو بڑی یونیورسٹیوں میں طلبہ انتخابات کے نتائج نے ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کے ممکنہ سیاسی احیاء کے بارے میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔
’اسلامی چھاتر شِیبِر‘(آئی سی ایس) بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم ہے۔
ملک کی دو اہم یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے انتخابات میں اس نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔مقامی رپورٹس کے مطابق، جہانگیرنگر یونیورسٹی سینٹرل اسٹوڈنٹس یونین (جے یو سی ایس یو) کے انتخابات میں آئی سی ایس نے 25 میں سے 20 نشستیں جیتیں۔ اس سے صرف چند دن قبل آئی سی ایس کی حمایت یافتہ یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس الائنس نے ڈھاکا یونیورسٹی میں 28 میں سے 23 نشستیں جیتیں، جن میں نائب صدر، جنرل سیکرٹری اور اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری جیسے بڑے عہدے شامل ہیں۔
(جاری ہے)
یہ اسٹوڈنٹس الیکشن مسلم اکثریتی ملک میں پہلی بار اس وقت ہوئے جب ایک طلبہ تحریک نے اگست 2024 میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے دست بردار ہو جانے پر مجبور کر دیا تھا۔
جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی چھاتر شیبر کو حسینہ کی حکومت نے انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت پابندی لگا دی تھی۔ لیکن گزشتہ سال بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے یہ پابندی ہٹا دی۔
عبوری حکومت کا کہنا تھا کہ انہیں ''دہشت گرد سرگرمیوں‘‘ میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ برسوں بعد اسلام پسندوں کی واپسیجماعتِ اسلامی نے 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ آزادی کی تحریک عوامی لیگ نے چلائی تھی، جو اس وقت شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں تھی۔
بعد میں حسینہ کے دورِ حکومت میں جماعت اسلامی کے کئی بڑے رہنماؤں کو 1971 میں انسانیت کے خلاف جرائم اور دیگر سنگین الزامات پر یا تو پھانسی دی گئی یا جیل بھیجا گیا۔ اس جماعت پر تقریباً ایک دہائی تک قومی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی رہی۔ تاہم،حسینہ کے اقتدار سے بے دخل ہونے اور جلاوطنی کے بعد جماعت اسلامی کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔
جبکہ موجودہ عبوری حکومت نے عوامی لیگ کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی ہے۔ڈھاکا کے سیاسی تجزیہ کار الطاف پرویز نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا،’’آپ اسے ایک تاریخی تبدیلی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ وقت کے ساتھ ہوا ہے۔ عوامی لیگ نے 1971 کی جنگِ آزادی کے جذبات کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ شمولیت کی روح کو کمزور کر دیا ہے۔
‘‘ قومی سیاست کا امتحان؟بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ اور نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ قومی انتخابات فروری 2026 میں ہوں گے۔
اس کے بعد سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور اتحاد طلبہ انتخابات کو عوامی رجحان جانچنے کا ایک پیمانہ سمجھتے ہوئے اس میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔
طلبہ انتخابات میں کامیابی کے بعد جماعتِ اسلامی کی اعلیٰ قیادت نے عندیہ دیا کہ یہ نتائج قومی انتخابات میں بھی دہرائے جائیں گے۔
تاہم، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے طلبہ ونگ، جتیاتابادی چھاتر دل، جو ڈھاکا یونیورسٹی کے انتخابات میں کوئی نشست نہ جیت سکا، نے کہا کہ ان کی کارکردگی آئندہ قومی انتخابات کی عکاسی نہیں کرے گی۔سپریم کورٹ کی وکیل رخسانہ خوندکر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میں نہیں سمجھتی کہ یہ قومی انتخابات کی نمائندگی ہے۔ اگر آپ تاریخ دیکھیں تو طلبہ تنظیمیں ہمیشہ حکومت مخالف جذبات کی عکاسی کرتی ہیں، اور حکومتی حمایت یافتہ امیدوار اکثر بڑی پوزیشنوں پر ہارتے رہے ہیں۔
‘‘تاہم، رخسانہ کا کہنا تھا کہ طلبہ انتخابات کے نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ’’کیونکہ یہ ایک تاثر پیدا کرتے ہیں جو اثرانداز ہو سکتا ہے۔ اور یہ ایک خاص صورتحال ہے۔‘‘
سیاسی تجزیہ کار الطاف پرویز کے مطابق یہ نتائج ایک ’’غالب اثر‘‘ ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''یہ واضح ہے کہ اسلام پسندوں کے لیے ووٹ یا رجحان وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔
‘‘ نوجوان اور انتخابی حرکیاتبنگلہ دیش کے 1991 کے قومی انتخابات میں جماعتِ اسلامی نے اپنی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی تھی، جب اسے تقریباً 12 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس کے بعد اس کی حمایت گھٹ کر 2008 کے عام انتخابات میں صرف 4.
جنوبی ایشیائی نیٹ ورک آن اکنامک ماڈلنگ کے ایک حالیہ نوجوانوں کے قومی سروے کے مطابق، 35 سال سے کم عمر ووٹرز میں سے تقریباً 22 فیصد جماعتِ اسلامی کو اور 39 فیصد بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کو سپورٹ کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق، بنگلہ دیش کی اوسط عمر صرف 26 سال ہے اور اس کی ایک چوتھائی آبادی کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے، لہٰذا نوجوان ووٹرز فروری 2026 کے انتخابات کے نتائج کو فیصلہ کن طور پر متاثر کریں گے۔
جنوبی ایشیائی نیٹ ورک آن اکنامک ماڈلنگ کے اندازے کے مطابق تقریباً نصف نوجوان ووٹرز ابھی تک غیر فیصلہ کن ہیں، جس سے آنے والے مہینوں میں سیاسی صف بندی میں بڑی تبدیلی کی گنجائش باقی ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے طلبہ انتخابات قومی انتخابات جماعت اسلامی انتخابات میں بنگلہ دیش کی کے انتخابات عبوری حکومت کے مطابق ملک کی سی ایس کے بعد
پڑھیں:
ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ کا جامعہ پنجاب سے طلبہ کی گرفتاریوں پر شدید ردعمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:۔ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظمِ اعلیٰ حسن بلال ہاشمی نے جامعہ پنجاب میں پرامن طلبہ و طالبات پر پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کے تشدد اوردرجنوں گرفتار طلبہ پر شدید تشویش اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائیاں نہ صرف آئینِ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ طلبہ کے جائز اور پرامن جمہوری حق کو سلب کرنے کی کھلی کوشش ہیں۔
اپنے جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان ہر شہری کو پرامن احتجاج اور آزادیِ اظہار کا بنیادی حق دیتا ہے۔ جامعات علم و تحقیق کے مراکز ہیں لیکن بدقسمتی سے جامعہ پنجاب کی انتظامیہ فسطائی ہتھکنڈوں کے ذریعے طلبہ کی آواز دبانے، ان کے مسائل کو نظرانداز کرنے اور ان پر زبردستی خاموشی مسلط کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہے۔ یہ رویہ نہ صرف تعلیمی ماحول کو تباہ کر رہا ہے بلکہ طلبہ میں بے چینی اور اضطراب کو مزید بڑھا رہا ہے۔
ناظمِ اعلیٰ نے کہا کہ پرامن طلبہ و طالبات پر لاٹھی چارج اور گرفتاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انتظامیہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ جامعات کا اصل حسن مکالمہ، علمی مباحثہ اور طلبہ کی فکری و جمہوری آزادی ہے، لیکن انتظامیہ اس حُسن کو جبر اور طاقت کے زور پر کچلنا چاہتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ اپنی تاریخ کے آغاز سے ہی طلبہ کے مسائل، ان کے تعلیمی اور فلاحی حقوق کے لیے پرامن اور جمہوری جدوجہد کرتی چلی آرہی ہے۔ جمعیت نے ہمیشہ لائبریریوں، ہاسٹلز، ٹرانسپورٹ، فیسوں میں کمی اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی جیسے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ طلبہ کے خلاف تشدد سے ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ یہ صورتحال مزید سنگین شکل اختیار کرے گی۔
ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت اس واقعے کا فوری نوٹس لے، گرفتار شدہ تمام طلبہ کو فی الفور رہا کرے اور اس تشدد میں ملوث سکیورٹی و پولیس اہلکاروں اور ذمہ دار افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے تاکہ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ حسن بلال ہاشمی نے متنبہ کیا کہ اگر صوبائی حکومت نے اس جبر کو بند نہ کیا اور گرفتار طلبہ کو رہا نہ کیا گیا تو اسلامی جمعیت طلبہ ملک بھر کے طلبہ کے ساتھ مل کر بڑے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ کا استحصال کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور جمعیت ہمیشہ طلبہ کے حقوق کے لیے میدانِ عمل میں موجود رہے گی