چین اور جنوب مشرقی ایشیا میں دنیا کی قدیم ترین ممیوں کی دریافت، نئے راز بھی مل گئے
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
سائنس دانوں نے چین اور جنوب مشرقی ایشیا میں ممکنہ طور پر دنیا کی قدیم ترین ممی دریافت کی ہیں۔ یہ دریافت اس حوالے سے غیر معمولی ہے کہ یہ ممی مصر میں ملنے والی 4,500 سال پرانی ممیوں سے بھی قدیم ہیں۔
یہ بھی پڑھیے مصر میں ماہر آثار قدیمہ نے 4 ہزار 300 سال پرانی ممی دریافت کرلی
تحقیق PNAS جریدے میں شائع ہوئی ہے جس میں چین، فلپائن، لاؤس، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے 11 آثار قدیمہ کی سائٹس سے تعلق رکھنے والی 54 قبل از زرعی دور (Pre-Neolithic) قبروں کا جائزہ لیا گیا۔ ان قبروں میں انسانی باقیات 4,000 سے 12,000 سال پرانی ہیں جن پر جلنے کے نشانات پائے گئے۔
محققین کے مطابق یہ اجسام زیادہ تر ’جھکی ہوئی‘ یا ’بیٹھی ہوئی‘ حالت میں دفنائے گئے تھے اور ان پر واضح جلنے کے نشانات موجود ہیں۔ یہ شواہد بتاتے ہیں کہ تدفین سے قبل ان اجسام کو آگ کے دھوئیں میں خشک کیا گیا تھا تاکہ انہیں ممی کی شکل دی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے میکسکو میں دریافت ہونے والی پرُاسرار ممیاں معمہ کیوں بن گئیں؟
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی محققہ ہسیاؤ چون ہُنگ کا کہنا ہے کہ یہ عمل صرف جسم کو گلنے سے بچانے کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے مذہبی، روحانی اور ثقافتی معانی بھی جڑے ہوئے تھے۔
مصر کی ممیوں سے فرقروایتی ممیوں کے برعکس یہ اجسام کسی بند ڈبے یا تابوت میں محفوظ نہیں کیے گئے تھے، اسی لیے یہ زیادہ سے زیادہ چند دہائیوں یا صدیوں تک ہی محفوظ رہ سکے۔
محققین نے ایکس رے ڈفریکشن (X-ray diffraction) ٹیکنالوجی استعمال کی جس سے ثابت ہوا کہ یہ ہڈیاں حرارت اور آگ کے براہِ راست اثر سے گزری تھیں۔
ہُنگ کے مطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ طریقہ جان بوجھ کر ایجاد کیا گیا یا پھر کسی مذہبی رسم کے دوران حادثاتی طور پر سامنے آیا۔ ممکن ہے کہ قدیم انسانوں نے پہلے گوشت کو دھوئیں سے محفوظ کرنے کا طریقہ دریافت کیا اور پھر اسے انسانی لاشوں پر آزمایا۔
پس منظراس دریافت سے قبل دنیا کی قدیم ترین ممی پیرو اور چلی میں ملی تھیں جن کی عمر تقریباً 7,000 سال پرانی بتائی گئی تھی۔ مگر اب چین اور جنوب مشرقی ایشیا میں دریافت شدہ یہ باقیات اس سے بھی زیادہ قدیم ہیں اور انسانی تاریخ میں ممی بنانے کے فن کی ابتدا کے بارے میں نئے سوالات کھڑے کرتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سال پرانی
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔