فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کے حق میں امریکہ کا ایک بار پھر ویٹو
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ میں الجزائر کے نمائندے عمار بن جامع نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ہمیں معاف کر دیجیے، خاص طور پر غزہ میں جہاں آگ ہر چیز کو جلا رہی ہے اور وہاں جہاں آنسو گیس سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ہمیں معاف کر دیجیے کیونکہ یہ کونسل آپ کے بچوں کو نجات نہیں دلا سکی، کیونکہ اسرائیل کی حفاظت کی جا رہی ہے اور اسے استثنی حاصل ہے، بین الاقوامی قانون کی جانب سے نہیں بلکہ اس بین الاقوامی نظام کی جانبداری کی وجہ سے۔ اسرائیل ہر روز قتل کر رہا ہے اور کوئی ردعمل نہیں آتا۔ اسرائیل نے لوگوں کو بھوک کا شکار کیا ہوا ہے اور کوئی کچھ نہیں کرتا۔ اسرائیل اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں پر بم برسا رہا ہے اور پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اسرائیل ایک ثالث پر حملہ کرتا ہے اور سفارتکاری کو پامال کرتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔" تحریر: محمد علی
ایک طرف غزہ کی پٹی میں اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی اور مصنوعی قحط کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ دوسری طرف غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دس ہزارویں اجلاس میں امریکہ نے ایک بار پھر جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دی ہے۔ سلامتی کونسل کے باقی تمام 14 اراکین نے اس قرارداد کی حمایت کی تھی۔ 18 ستمبر 2025 کی شام منعقد ہونے والے اس اجلاس میں ڈنمارک نے 10 اراکین کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر آزاد کر دینے اور غزہ میں فوری، غیر مشروط اور ہمیشگی جنگ بندی کے قیام پر مبنی قرارداد پیش کی جسے تمام اراکین کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود امریکہ نے ویٹو کر دیا اور یوں ظلم و ستم کا شکار فلسطینیوں کی امید ایک بار پھر ختم ہو گئی۔ غزہ جنگ کے دوران جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے پر مبنی امریکہ کا یہ چھٹا اقدام ہے۔
غذائی سلامتی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے آئی پی سی نے گذشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ غزہ کے وسیع حصوں میں قحط شروع ہو چکا ہے۔ سلامتی کونسل کے کل 15 اراکین میں سے 10 اراکین نے جنگ بندی کی حالیہ قرارداد تیار کی تھی جس میں آئی پی سی کی رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا: "آئی پی سی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ غزہ میں قحط شروع ہو چکا ہے اور ستمبر کے آخر تک دیر البلح اور خان یونس کے صوبوں میں بھی قحط کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ غزہ کی پوری پٹی میں انسانی بحران پایا جاتا ہے اور ہم بھوک کو عام شہریوں کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کے فوجی آپریشن میں وسعت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے فوری بند کرنے اور غزہ میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کی روک تھام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
اقوام متحدہ میں ڈنمارک کی نمائندہ کرسٹینیا مارکوس لاسن نے اس اجلاس میں کہا: "جنگ بندی کی قراردادیں ایک واضح پیغام لیے ہوئے ہیں۔ میرے ساتھیو، اجازت دیں یہ قرارداد ایک واضح پیغام بھیجے، اس بات کا پیغام کہ سلامتی کونسل بھوکے عام شہریوں، یرغمالیوں اور جنگ بندی کے مطالبے سے روگردان نہیں ہے۔ اجازت دیں یہ قرارداد ثابت کرے کہ ہم ان امدادی کارکنوں کی حمایت کرتے ہیں جو انتہائی کٹھن حالات میں کام کر رہے ہیں اور ہمیں اس بات کا شرف حاصل ہے کہ دنیا بھر میں لائیو شائع ہونے والی جنگ اور اس کے دلخراش واقعات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اور یہ کہ بین الاقوامی قانون کی اہمیت ہے، انسانی اصول اہمیت رکھتے ہیں اور اقوام متحدہ کے منشور میں بیان شدہ انسان دوستی کا اصول ہمارا رہنما اصول ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "غزہ میں قحط ایک حقیقت ہے اور ہم فوری، ہمیشگی اور غیر مشروط جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔"
اس اجلاس میں امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے نہ صرف اس قرارداد کی حمایت نہیں کی بلکہ اسے ویٹو کر کے غیر موثر بنا دیا۔ اسرائیل کے قریبی اتحادی ہونے کے ناطے امریکہ اب تک سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی کئی قراردادیں ویٹو کر چکا ہے۔ سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں امریکہ کی نمائندہ مورگن اورٹیگاس نے یہ بہانہ بناتے ہوئے کہ اس قرارداد میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی یا اسرائیل کا اپنا دفاع کرنے کا حق تسلیم نہیں کیا گیا اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ اس نے دعوی کرتے ہوئے کہا: "یہ قرارداد حماس کے حق میں جھوٹی روایتوں کی تصدیق کر رہا ہے جو بدقسمتی سے اس کونسل کے اراکین میں رائج ہو چکی ہیں۔" امریکی نمائندے نے مزید دعوی کیا: "امریکہ کی جانب سے اس قرارداد کو ویٹو کرنا کسی کے لیے تعجب آور نہیں ہو گا کیونکہ اس میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی جس نے 7 اکتوبر کو حملے کا آغاز کیا تھا۔"
اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: "فلسطینی عوام جو سلامتی کونسل سے غزہ جنگ بند کروانے کی امیدیں وابستہ کر چکے تھے اس وقت شدید مایوسی اور غصے کا شکار ہیں۔" ریاض منصور نے امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد سلامتی کونسل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "غزہ سے شائع ہونے والی تصاویر شدید دکھ اور درد کی حامل ہیں اور ہر دیکھنے والے کو متاثر کر دیتی ہیں۔ ایسے کمسن بچے کو بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں، ایسے اسنائپر شوٹر جو عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، عام شہری اکٹھے قتل عام ہو رہے ہیں، خاندان جلاوطن ہو رہے ہیں، امدادی کارکن اور صحافی نشانہ بن رہے ہیں جبکہ اسرائیلی حکمران کھلم کھلا ان تمام واقعات کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔"
اقوام متحدہ میں الجزائر کے نمائندے عمار بن جامع نے امریکہ کے ویٹو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔" انہوں نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ہمیں معاف کر دیجیے، خاص طور پر غزہ میں جہاں آگ ہر چیز کو جلا رہی ہے اور وہاں جہاں آنسو گیس سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ہمیں معاف کر دیجیے کیونکہ یہ کونسل آپ کے بچوں کو نجات نہیں دلا سکی، کیونکہ اسرائیل کی حفاظت کی جا رہی ہے اور اسے استثنی حاصل ہے، بین الاقوامی قانون کی جانب سے نہیں بلکہ اس بین الاقوامی نظام کی جانبداری کی وجہ سے۔ اسرائیل ہر روز قتل کر رہا ہے اور کوئی ردعمل نہیں آتا۔ اسرائیل نے لوگوں کو بھوک کا شکار کیا ہوا ہے اور کوئی کچھ نہیں کرتا۔ اسرائیل اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں پر بم برسا رہا ہے اور پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اسرائیل ایک ثالث پر حملہ کرتا ہے اور سفارتکاری کو پامال کرتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنگ بندی کی قرارداد ویٹو ہمیں معاف کر دیجیے کوئی کچھ نہیں کرتا سلامتی کونسل کے اقوام متحدہ میں کرتے ہوئے کہا بین الاقوامی جنگ بندی کے ہے اور کوئی میں امریکہ یہ قرارداد کی جانب سے رہی ہے اور رہا ہے اور امریکہ کی اجلاس میں کرتے ہیں کی حمایت کرتا ہے رہے ہیں نہیں کی کا شکار ویٹو کر اور ہم
پڑھیں:
غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اعلامیہ
استنبول (ویب دیسک )غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اجلاس کا اعلامیہ
غزہ کی تازہ صورتِ حال پر استنبول میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد 7 مسلم ممالک نے مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا۔
اعلامیہ میں زور دیا گیا ہے کہ غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے، اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے اور انسانی امداد کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور قومی نمائندگی کو تسلیم کیے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔
شریک ممالک نے اس مؤقف پر اتفاق کیا کہ بین الاقوامی استحکام فورس کے قیام پر غور کیا جائے گا تاکہ جنگ بندی کی نگرانی اور انسانی امداد کی فراہمی مؤثر بنائی جا سکے۔
اعلامیے کی نمایاں شقیں
1. غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کرنے پر مکمل اتفاق۔
اجلاس میں شریک تمام ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کا سیاسی و انتظامی نظم کسی بیرونی قوت کے بجائے مقامی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہونا چاہیے۔
2. جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر تشویش۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بھی حملے جاری ہیں جن میں اب تک تقریباً 250 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
3. انسانی امداد کی فراہمی کی فوری ضرورت۔
شریک ممالک نے مطالبہ کیا کہ کم از کم 600 امدادی ٹرک اور 50 ایندھن بردار گاڑیاں غزہ میں بلا تعطل داخل کی جائیں۔
4. بین الاقوامی استحکام فورس پر مشاورت۔
اعلامیے میں تجویز دی گئی کہ غزہ میں ایک غیرجانب دار فورس تشکیل دی جائے جو امن کی نگرانی اور انسانی امداد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
5. فلسطینی انتظامیہ کی اصلاحی کوششوں کی حمایت۔
شریک ممالک نے فلسطینی قیادت کے اصلاحی اقدامات اور عرب لیگ و اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے منصوبوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
یہ اہم اجلاس ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فیدان کی میزبانی میں استنبول کے ایک معروف ہوٹل میں منعقد ہوا، جس میں انڈونیشیا، پاکستان، سعودی عرب، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ یا نمائندوں نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران جنگ بندی کی تازہ صورتِ حال، انسانی بحران، اور آئندہ سفارتی اقدامات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ترکیہ کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اعلانِ جنگ بندی کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں تقریباً 250 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ ہم امن کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں، مگر اسرائیل کی جارحانہ کارروائیاں عالمی ضمیر کے لیے چیلنج ہیں۔
فیدان نے کہا کہ ترکیہ نے اپنے تمام علاقائی شراکت داروں سے رابطے بڑھا دیے ہیں تاکہ جنگ بندی کو پائیدار امن میں تبدیل کیا جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ اگر انسانی امداد کی راہیں نہ کھلیں تو غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہو جائے گا۔