سعودی قربت، پاکستانی اعزاز یا آزمائش
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: فی الحال اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کیلئے ایک اعزاز بھی ہے اور ایک آزمائش بھی۔ آنیوالے دن اور عملی اقدامات ہی طے کریں گے کہ یہ محض ایک اور اعلان ہے یا خطے کے مستقبل کو بدلنے والا معاہدہ۔ اس وقت پاکستان کیلئے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اس اعزاز کو ذمہ داری کے ساتھ نبھائے، کیونکہ تاریخ یہی فیصلہ کرے گی کہ ہم نے اس موقع کو کس طرح استعمال کیا۔ تحریر: ارشد مہدی جعفری
ریاض کی فضا اُس دن کچھ اور ہی تھی۔ شاہی محل کی سنہری راہداریوں میں قدموں کی آہٹوں کیساتھ ساتھ ایک نئے عہد کا اعلان گونج رہا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانیوالا یہ دفاعی معاہدہ صرف کاغذ پر لکھے الفاظ نہیں تھے، بلکہ ایک پوری تاریخ کا بوجھ اور ایک نئے مستقبل کا وعدہ تھا۔ اعلان ہوا کہ اگر ایک پر حملہ ہوگا تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائیگا۔ یہ جملہ سننے میں شاید آسان لگے، مگر حقیقت میں یہ خطے کے نقشے کو بدلنے کی پہلی دستک ہے۔ پاکستان کیلئے یہ لمحہ خوشی کا بھی ہے اور فکر کا بھی، کیونکہ عزت کیساتھ ساتھ ذمہ داری کا بوجھ بھی ہمارے کندھوں پر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے قریب آئے ہوں۔ یہ تعلق دہائیوں پر محیط ہے۔ اسی زمین پر کھڑے ہو کر ہمیں یاد آتا ہے کہ 1980ء کی دہائی میں سعودی عرب نے پاکستان کو دفاعی شراکت کے طور پر شامل کیا تھا۔
اُس زمانے میں پاکستانی فوجی دستے نہ صرف تربیت اور مشاورت دیتے بلکہ حرمین شریفین کی حفاظت کے وعدے کیساتھ تعینات بھی رہتے۔ اُس وقت بھی یہ تعلق ایک جذباتی رشتہ اور ایک عملی ضرورت دونوں کا امتزاج تھا۔ آج بھی منظر مختلف نہیں، بس کردار بدل گئے ہیں اور زمانے کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ اس بار جو بات نمایاں ہے، وہ یہ کہ پاکستان کی فوجی قیادت اور سیاسی حکومت ایک ساتھ اس معاہدے میں نظر آئیں۔ جنرل عاصم منیر کا ریاض کا دورہ اور سعودی قیادت سے اُن کے روابط اس نئے باب کو ایک خاص وزن دیتے ہیں۔ ماضی میں اکثر یہ شکوہ رہا کہ فوج اور سیاست ایک دوسرے سے الگ الگ راستوں پر چلتے ہیں، مگر اس بار دونوں چہرے ایک ساتھ دکھائی دیئے۔ اس نے ایک ایسا پیغام دیا، جسے نہ صرف عوام بلکہ خطے کے مبصرین بھی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔
یہیں پر ایک تلخ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ کچھ ہی برس پہلے پاکستان نے یمن کی جنگ میں غیر جانبداری اختیار کی تھی۔ آج یمن بارہا دعویٰ کرتا ہے کہ اُس نے ایسے سات سے آٹھ بحری جہاز تباہ کر دیئے ہیں، جو سعودی تھے، مگر درپردہ نام اور پہچان بدل کر اسرائیل کو کمک پہنچا رہے تھے۔ اگر یہ دعویٰ حقیقت کے قریب ہے تو پھر کیا پاکستان مستقبل میں یمن کے غیظ و غضب سے بھی سعودی عرب کا دفاع کرے گا۔؟ یہ سوال آنیوالے دنوں میں کسی نہ کسی شکل میں سامنے ضرور آئے گا۔ معاہدے کا دوسرا پہلو معیشت سے جڑا ہے اور شاید سب سے زیادہ نازک بھی یہی ہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سعودی عرب نے بارہا ہماری معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے قرضے، سہولتیں اور تیل کی فراہمی کی صورت میں مدد کی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ادائیگیوں کیلئے ایک سال کی مہلت بھی دی گئی۔ یہ سب ہمارے لئے سہولت کا باعث تو ہے، مگر ساتھ ساتھ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا ہم اپنے دفاع کو بھی معاشی انحصار کی شرطوں میں باندھ رہے ہیں۔؟
کچھ ناقدین اسے ’’قرض کے بدلے دفاع‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔ اس سوچ کو بالکل رد کرنا آسان نہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ معاشی ضرورت اکثر خارجہ پالیسی اور دفاعی فیصلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ تصویر اُس وقت اور مکمل ہو جاتا ہے، جب ہم بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کو دیکھتے ہیں۔ پچھلے تین برسوں میں تقریباً 29 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر باہر گئے، جن میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ یہ صرف اعداد نہیں بلکہ ہمارے ہنر اور محنت کی کہانی ہے۔ سعودی عرب اگر مزید لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار دینے کا وعدہ کرے تو بظاہر یہ خوش آئند لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ ہجرت ہمارے لئے خوشحالی لائے گی یا یہ محض وقتی ریلیف ہوگا۔؟ اس معاہدے میں دفاعی رنگ ضرور ہے، مگر اس کا دوسرا رخ براہِ راست محنت کشوں اور معیشت سے جڑا ہوا ہے۔
علاقائی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہ معاہدہ دہلی اور تل ابیب تک لرزہ پیدا کرچکا ہے۔ بھارت نے فوری طور پر اس پر ردعمل دیا اور کہا کہ وہ اس پیشرفت کو اپنے مفادات کی روشنی میں پرکھے گا۔ یہ ردعمل غیر متوقع نہیں تھا، کیونکہ خطے میں کسی نئے دفاعی بلاک کی موجودگی براہِ راست پڑوسی ممالک کی سوچ کو بدل دیتی ہے۔ اسرائیل کیلئے بھی یہ صورتحال آسان نہیں۔ وہ خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو آگے بڑھا رہا تھا، مگر اس معاہدے نے اس عمل کو سست کر دیا ہے۔ یوں یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان سمجھوتہ نہیں رہا، بلکہ پورے خطے کی سیاست کو نئی کروٹ دینے والا واقعہ بن گیا ہے۔ عوام کے ایک طبقے نے اس معاہدے کو "اسلامک نیٹو" کا نام دیا ہے، مگر خدشات اور سوالات اپنی جگہ ہیں۔
سعودی عرب ایک طرف امریکہ کیساتھ ہزاروں ارب ڈالر کے معاہدے اور تحائف بانٹ رہا ہے، ابراہم معاہدے میں شمولیت کے اشارے دے رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان پر اپنی سلامتی کا بوجھ ڈال رہا ہے۔ یہ تضاد اس معاملہ سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ اتحاد کس کیخلاف اور کس کے حق میں استعمال ہوگا۔؟ کیا یہ واقعی امتِ مسلمہ کے تحفظ کی ضمانت ہے یا محض بڑی طاقتوں کی شطرنج میں ایک نئی چال ہے۔؟ تاہم ماضی کی ایک بڑی تلخ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے۔ کئی معاہدے، کئی یادداشتیں دستخط کے بعد صرف کاغذوں میں قید ہو کر رہ گئیں۔ اگر یہی انجام اس معاہدے کا بھی ہوا تو یہ صرف ایک بیانیہ ثابت ہوگا۔ اصل فرق تب پڑے گا، جب فوجی تربیت، ساز و سامان کی منتقلی، مالی تعاون کے پیکجز اور مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول جیسے عملی اقدامات سامنے آئیں گے۔ یہی چیز طے کرے گی کہ یہ محض اعلان ہے یا خطے کی سیاست کا نیا موڑ ہے۔
یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا سعودی عرب پاکستان کو مستقبل میں سوکالڈ ابراہیمی معاہدے جیسے کسی بڑے بلاک میں کھینچنے کی کوشش کرے گا۔؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں۔ پاکستان کی ایٹمی حیثیت اور عوامی جذبات اتنے مضبوط ہیں کہ کوئی طاقت آسانی سے ایسا فیصلہ ہم پر مسلط نہیں کرسکتی۔ ہاں، دباؤ، ترغیب یا تجارتی مواقع ضرور پیش کیے جا سکتے ہیں، مگر آخرکار فیصلہ ہماری اپنی خود مختاری پر ہی منحصر ہوگا۔ بالآخر اس معاہدے کا امتحان صرف دفاعی یا خارجی نہیں بلکہ داخلی بھی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری سول اور فوجی قیادت، ہماری معیشت اور ہماری عوامی رائے کس حد تک اس معاہدے کو سنبھال سکتی ہے۔
اگر ہم نے اسے صرف ایک قومی فخر کا نعرہ بنا کر قبول کیا تو ممکن ہے کہ کل اس کے منفی اثرات کا بوجھ بھی ہم ہی اٹھائیں۔ لیکن اگر ہم نے اسے ذمہ داری کیساتھ، حقیقت پسندی کیساتھ اور مضبوط داخلی بنیادوں کے ساتھ آگے بڑھایا تو یہ واقعی ایک نئے باب کی شروعات بن سکتا ہے۔ فی الحال اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کیلئے ایک اعزاز بھی ہے اور ایک آزمائش بھی۔ آنیوالے دن اور عملی اقدامات ہی طے کریں گے کہ یہ محض ایک اور اعلان ہے یا خطے کے مستقبل کو بدلنے والا معاہدہ۔ اس وقت پاکستان کیلئے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اس اعزاز کو ذمہ داری کے ساتھ نبھائے، کیونکہ تاریخ یہی فیصلہ کرے گی کہ ہم نے اس موقع کو کس طرح استعمال کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان کیلئے پاکستان کی یہ معاہدہ اس معاہدے کا بوجھ کے ساتھ اور ایک یہ محض ہے اور خطے کے بھی ہے
پڑھیں:
گیم چینجر پاک سعودی دفاعی معاہدے کے پیچھے شہباز اور عاصم منیر کا ٹیم ورک
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اور اسٹرٹیجک تعاون کے تاریخی معاہدے کو وزیر اعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان غیر معمولی ہم آہنگی اور شاندار رابطہ کاری کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک اعلیٰ سرکاری ذریعے نے دی نیوز کو بتایا کہ اس وقت ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اعتماد اور باہمی یقین کی جو سطح موجود ہے وہ پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی، اور یہی اتحاد پاکستان کو قومی اہمیت کے بڑے اہداف حاصل کرنے کے قابل بنا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے ایک قریبی معاون کا کہنا تھا کہ دونوں شخصیات کے درمیان ایک منفرد اور ہم آہنگ تعلق ہے جو خالص قومی مفاد پر مبنی ہے اور پاکستان کی ترقی پر مرکوز ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، ان کے درمیان رابطہ بے رکاوٹ ہے اور پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کیلئے ایک مشترکہ ویژن پایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق، حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران (جس کے اختتام کو پاکستان کی ’’قابلِ ذکر فتح‘‘ قرار دیا گیا) سیاسی اور عسکری قیادت نے غیر معمولی سطح کی یکجہتی اور سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا۔ ان کا تعاون عسکری، سفارتی اور سیاسی ردعمل کے تمام پہلوؤں پر محیط تھا جس سے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ملک کے اسٹریٹجک مقاصد کو واضح اور موثر انداز میں حاصل کیا جائے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ اسی اعتماد پر مبنی شراکت داری نے سعودی عرب کے ساتھ ہوئی پیش رفت کی بنیاد رکھی۔ یہ اعلیٰ سطح کا دفاعی معاہدہ، جسے ’’تاریخی‘‘ کہا جا رہا ہے، کئی ماہ کی محتاط اور مربوط سفارتکاری کا عکاس ہے جو اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کی پشت پناہی کے ساتھ ممکن ہوا۔ ماضی میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان اختلافات کی خبریں پھیلائی جاتی رہیں، تاہم دونوں جانب کے ذرائع اس امر کی مسلسل تصدیق کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان مکمل اتفاق رائے ہے، جو ملک نے کئی برسوں میں پہلی بار دیکھا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان یہ ہم آہنگی، جو باہمی احترام اور مشترکہ ذمہ داری کے احساس پر مبنی ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے فیصلوں میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہی ہے، چاہے وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہوں، امریکا کے ساتھ بات چیت یا پھر خطے کی سیکورٹی صورتحال۔
انصار عباسی