امریکی ورک ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ، 71فیصد بھارتی لپیٹ میں آگئے
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امیگریشن کے خلاف اپنے تازہ اقدام کے طور پر ایچ-1بی (H-1B) ویزا کے لیے ایک لاکھ ڈالر (تقریباً 88 لاکھ روپے) فیس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:صدر ٹرمپ کے گولڈ اور پلاٹینم کارڈز کیا ہیں اور اس سے کون فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق یہ اقدام ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ ویزا سب سے زیادہ بھارت اور چین سے تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد کو ملتا ہے۔
بھارتی شہری سب سے زیادہ متاثرامریکی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 71 فیصد ایچ-1بی ویزے بھارتی شہریوں کو ملے، جبکہ چین دوسرے نمبر پر رہا جس کا حصہ صرف 11.
ایمیزون، مائیکروسافٹ اور میٹا جیسی بڑی کمپنیاں اس ویزا کے ذریعے ہزاروں ملازمین بھرتی کرتی ہیں۔ صرف ایمیزون اور اس کی ذیلی کمپنی اے ڈبلیو ایس کو 2025 کے ابتدائی چھ ماہ میں 12 ہزار سے زائد ویزے منظور ہوئے تھے۔
ماہرین کے مطابق فیس میں زبردست اضافہ بھارتی امیدواروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا، کیونکہ انہیں گرین کارڈ کے حصول کے طویل انتظار کے دوران بار بار ویزا تجدید کرنی پڑتی ہے، اور ہر بار یہ بھاری فیس ادا کرنا ہوگی۔
راہول گاندھی کا ردِعملبھارت میں اس فیصلے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔
کانگریس رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مودی حکومت نے بیرون ملک کام کرنے والے بھارتی ماہرین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں اپنائی۔
I repeat, India has a weak PM. https://t.co/N0EuIxQ1XG pic.twitter.com/AEu6QzPfYH
— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) September 20, 2025
انہوں نے خبردار کیا کہ فیس میں اضافہ بھارتی نوجوانوں کے لیے امریکی ملازمتوں کے دروازے بند کر دے گا اور آئی ٹی صنعت کو براہِ راست نقصان پہنچائے گا۔
وائٹ ہاؤس کا مؤقفوائٹ ہاؤس کے اسٹاف سیکرٹری ول شارف نے کہا کہ ایچ-1بی پروگرام ملک کے امیگریشن نظام میں سب سے زیادہ غلط استعمال ہونے والے ویزوں میں شمار ہوتا ہے۔
ان کے بقول نئی فیس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ جو افراد امریکا آ رہے ہیں وہ واقعی اعلیٰ مہارت رکھتے ہوں اور امریکی کارکنوں کی جگہ نہ لے سکیں۔
صدر ٹرمپ کا اعلان
صدر ٹرمپ نے اعلان کرتے ہوئے کہا ’ہمیں بہترین کارکن چاہیے، اور یہ اقدام اس بات کی ضمانت ہے کہ یہاں صرف وہی آئیں گے جو واقعی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں‘۔
ایچ-1بی ویزا کیا ہے؟ایچ-1بی ویزا امریکہ میں عارضی کام کرنے کا اجازت نامہ ہے جسے 1990 میں متعارف کرایا گیا۔ اس کے تحت ایسی ملازمتوں کے لیے غیر ملکی ماہرین کو رکھا جا سکتا ہے جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ جیسے شعبوں میں مشکل سے پُر ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی ورک ویزا مزید مہنگا،’ہم بہترین لوگوں کو امریکا میں آنے کی اجازت دیں گے‘،صدر ٹرمپ
یہ ویزا ابتدائی طور پر تین سال کے لیے دیا جاتا ہے جسے زیادہ سے زیادہ چھ سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
سخت تر شہریت ٹیسٹامریکی حکومت نے شہریت کے لیے درخواست دینے والوں پر بھی ایک مشکل ٹیسٹ دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جو صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں شروع کیا تھا لیکن صدر بائیڈن نے ختم کر دیا تھا۔
اس نئے ٹیسٹ میں امیدواروں کو امریکی تاریخ اور سیاست سے متعلق 128 سوالات کے ذخیرے سے زبانی طور پر 20 سوال پوچھے جائیں گے، جن میں سے کم از کم 12 کے درست جواب دینا لازمی ہوگا۔
ٹرمپ کا ’گولڈ کارڈ‘ ویزا پروگرامصدر ٹرمپ نے ایک نیا ’گولڈ کارڈ‘ ویزا پروگرام بھی متعارف کرایا ہے جس کے تحت انفرادی افراد کے لیے فیس ایک ملین ڈالر اور کمپنیوں کے لیے دو ملین ڈالر رکھی گئی ہے۔ امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹ نِک کے مطابق یہ پروگرام صرف غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افراد کے لیے ہوگا جو امریکہ میں کاروبار اور روزگار پیدا کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ گرین کارڈ پروگرام غیر منطقی تھا کیونکہ اس کے ذریعے ہر سال اوسطاً 2.8 لاکھ افراد آتے تھے جن کی آمدنی سالانہ صرف 66 ہزار ڈالر تھی اور وہ زیادہ تر حکومتی امداد پر انحصار کرتے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایچ-1بی) ویزا بھارت بھارتی شہری چین گولڈ کارڈ ورک ویزاذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایچ 1بی ویزا بھارت بھارتی شہری چین گولڈ کارڈ ورک ویزا کے مطابق سے زیادہ سکتا ہے ایچ 1بی کے لیے
پڑھیں:
ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
واشنگٹن:امریکا کے وزیر توانائی کرس رائٹ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ایٹمی تجربات کا حکم دیا گیا ہے، ان میں فی الحال ایٹمی دھماکے شامل نہیں ہوں گے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں امریکی وزیر توانائی اور ایٹمی دھماکوں کا اختیار رکھنے والے ادارے کے سربراہ کرس رائٹ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت جن تجربوں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ سسٹم ٹیسٹ ہیں اور یہ ایٹمی دھماکے نہیں ہیں بلکہ یہ انہیں ہم نان-کریٹیکل دھماکے کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات میں ایٹمی ہتھیار کے تمام دیگر حصوں کی جانچ شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں اور ایٹمی دھماکا کرنے کی صلاحیت کو فعال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربے نئے سسٹم کے تحت کیے جائیں گے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئے تیار ہونے والے متبادل ایٹمی ہتھیار پرانے ہتھیاروں سے بہتر ہوں۔
کرس رائٹ نے کہا کہ ہماری سائنس اور کمپیوٹنگ کی طاقت کے ساتھ، ہم انتہائی درستی کے ساتھ بالکل معلوم کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے میں کیا ہوگا اور اب ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ وہ نتائج کس صورت میں حاصل ہوئے اور جب بم کے ڈیزائن تبدیل کیے جاتے ہیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔
قبل ازیں جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا فوری حکم دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایٹمی تجربے کی آغاز کی دھمکی پر روس نے بھی خبردار کردیا؛ اہم بیان
ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا ان تجربات میں وہ زیر زمین ایٹمی دھماکے بھی شامل ہوں گے جو سرد جنگ کے دوران عام تھے تو انہوں نے اس کا واضح جواب نہیں میں دیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکا نے 1960، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔