واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ روس، یوکرین اور غزہ کے معاملات پر بات چیت جاری ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ چین کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ٹک ٹاک پر بہت سخت کنٹرول کیا جائے گا اور اس حوالے سے چینی صدر کی جانب سے ڈیل منظور کرنے پر ان کے مشکور ہیں۔

امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ بڑے تجارتی اور دفاعی معاہدوں پر کام جاری ہے اور وہ پچیس ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں ترک صدر کا استقبال کریں گے۔

صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ انہوں نے گولڈ کارڈ کے اجرا کے لیے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔

بگرام ایئربیس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ بگرام ایئربیس چھوڑنا ایک شرمناک لمحہ تھا اور اب اسے واپس لینے کے لیے افغانستان سے مذاکرات جاری ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان مذاکرات کی قیادت امریکی نمائندہ خصوصی ایڈم بوہلر کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ بگرام ایئربیس چینی نیوکلیئر سائٹ کے بہت قریب ہے اور یہ اُس مقام سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔

امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بگرام ایئربیس پر محدود تعداد میں امریکی فوج کی دوبارہ تعیناتی پر غور کیا جا رہا ہے۔

Post Views: 7.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بگرام ایئربیس کے ساتھ کہا کہ

پڑھیں:

امریکا بگرام ائر بیس کی واپسی کیوں چاہتا ہے؟

گزشتہ روز برطانیہ کے دورے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا، ’ہم بگرام ائر بیس کو طالبان حکومت سے واپس لینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ چین کے اُس مقام سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار بناتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ

اُسی پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بائیڈن کے دورِ حکومت میں امریکا افغانستان سے شرمناک طریقے سے نکلا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ ائربیس واپس چاہیے کیونکہ طالبان حکومت کو بھی ہم سے کچھ چیزیں چاہئیں۔

بگرام ائر بیس کی اہمیت کیا ہے؟

بگرام ائر بیس افغانستان کا سب سے بڑا اور سب سے اسٹریٹیجک فوجی اڈہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کئی حوالوں سے ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ مقام کابل سے تقریباً 40 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ یہاں سے وسطی ایشیا، چین، ایران اور پاکستان تک فوجی آپریشنز کی کڑی نگرانی ممکن ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ نے افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لینے کا اعلان کر دیا

امریکی فوج کے افغانستان پر قبضے کے دوران یہ اُن کی فوجی طاقت کا مرکز تھا؛ یہ بیس امریکی اور نیٹو افواج کے لیے افغانستان میں کمانڈ، لاجسٹکس اور ایئر آپریشنز کا بنیادی ہیڈکوارٹر تھا۔ یہاں سے لڑاکا طیارے، ڈرون اور ہیلی کاپٹر اڑان بھرتے تھے جو افغانستان کے اندرونی حصوں اور سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتے رہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق یہ خفیہ سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ بگرام پر قید خانہ اور انٹیلی جنس سرگرمیوں کے مراکز بھی قائم تھے جہاں اہم طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کو رکھا جاتا رہا۔ بگرام ائر بیس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس بیس سے امریکا نہ صرف افغانستان بلکہ ایران، پاکستان، وسطی ایشیا اور چین کے مغربی حصوں پر بھی نظر رکھ سکتا تھا۔

جو بائیڈن کی غلطی

امریکا نے 15 اگست 2021 کو، سابق صدر جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں، افغانستان سے انخلا کے دوران یہ بیس خالی کر دیا تھا جس پر طالبان نے قابو پالیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے سب سے بڑی غلطی قرار دیا اور اب اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین کا ردعمل: کشیدگی بڑھانے والے بیانات سے گریز کیا جائے

امریکی صدر کے بیان پر چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ چین افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور کسی بھی ملک کو وہاں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

چینی ترجمان نے مزید کہا کہ خطے میں استحکام سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ متعلقہ فریقین ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جو کشیدگی بڑھائیں۔

امریکی عہدیداران بھی مخالف

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بگرام ائربیس کو فوجی طاقت کے ذریعے واپس لینے کی کوئی فعال منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی۔ اس عہدیدار کے بقول، یہ اڈہ 2021 میں چھوڑ دیا گیا تھا اور دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش ایک بڑی مہم ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے ٹرمپ کو پاکستان سے کیا کام ہے؟

ان کے مطابق بگرام ائربیس کو قبضے میں لینے اور برقرار رکھنے کے لیے دس‌ ہزار فوجیوں کی ضرورت ہوگی، اڈے کی مرمت پر بھاری اخراجات آئیں گے، اور رسد کی فراہمی کے لیے ایک لازمی مگر مشکل لاجسٹک کام کرنا پڑے گا۔ چاہے امریکی فوج اس بیس کا کنٹرول حاصل بھی کر لے، تب بھی اس کے گرد پھیلے ہوئے وسیع علاقے کو صاف اور محفوظ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا تاکہ وہاں سے امریکی افواج پر راکٹ حملے نہ کیے جا سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان بگرام ایئر بیس ڈونلڈ ٹرمپ

متعلقہ مضامین

  • بگرام ایئربیس چھوڑنا شرمناک، واپسی کیلئے افغانستان سے مذاکرات جاری ہیں: ٹرمپ
  • امریکا اور افغانستان میں بگرام ایئربیس پر مذاکرات کا آغاز، صدر ٹرمپ کی تصدیق
  • افغان عوام نے کبھی غیر ملکی فوجی موجودگی قبول نہیں کی، افغان وزارت خارجہ
  • صدر ٹرمپ کی بگرام ایئربیس پر قبضے کی خواہش، امریکا کیا کرنے والا ہے؟
  •  ہم افغان سرزمین پر امریکی افواج کی واپسی کو مسترد کرتے ہیں، بگرام ایئر بیس سے متعلق صدر ٹرمپ کے بیان پر افغانستان کا رد عمل
  • امریکا بگرام ائر بیس کی واپسی کیوں چاہتا ہے؟
  • اسرائیل اور غزہ کا معاملہ پیچیدہ ہے مگر حل ہوجائے گا، افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینا چاہتے ہیں، ٹرمپ
  • طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
  • افغانستان میں بگرام ایئربیس کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ