امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا کو بگرام ایئربیس کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا اور اب اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے افغانستان سے مذاکرات جاری ہیں۔

اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ بگرام فوجی ایئربیس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور امریکا اس بیس پر دوبارہ اپنی فوجی تعیناتی چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے افغانستان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اس سے قبل بھی واضح کیا تھا کہ یہ ایئربیس امریکا کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ یہ اُس علاقے سے صرف ایک گھنٹے کی پرواز کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔

امریکی اخبار کے مطابق بگرام ایئربیس پر محدود تعداد میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر غور کیا جا رہا ہے اور ان مذاکرات کی قیادت امریکی نمائندہ خصوصی ایڈم بوہلر کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران امریکا نے تقریباً 20 سال بعد بگرام ایئربیس افغان حکام کے حوالے کر دیا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے اب اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں چھوڑا گیا فوجی ساز و سامان اور بگرام ایئربیس دونوں واپس لیے جائیں گے جس کے لیے مذاکرات کا باضابطہ آغاز ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ نے جمعہ کو ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ چینی سرکاری میڈیا کے مطابق یہ گفتگو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی کم کرنے اور ویڈیو ایپ ٹک ٹاک کے حوالے سے ممکنہ معاہدے پر مرکوز رہی۔

وائٹ ہاوس نے بھی فوری طور پرکوئی تبصرہ نہیں کیا۔  یہ دونوں رہنمائوں کے درمیان تین ماہ بعد پہلی گفتگو تھی۔ دونوں فریق 30اکتوبرکو آئندہ ایشیا پیسفک اکنامک کواپریشن  APECسربراہی اجلاس کے دوران براہ راست ملاقات پر بھی غور کر رہے ہیں۔

دریں اثنا ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ مجھے ٹک ٹاک پسند ہے، اس نے میری انتخابی مہم میں بھی مدد کی، ٹک ٹاک ایک قیمتی اثاثہ ہے اور امریکا اس پر اختیار رکھتا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکا اور چین تجارتی معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بگرام ایئربیس رہے ہیں

پڑھیں:

افغان طالبان کا بگرام ائربیس امریکا کودینے سے صاف انکار          

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-01-16

 

 

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان میں طالبان کی حکومت نے امریکا کی جانب سے بگرام ائر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے عزائم رکھنے والوں کو ’افغانستان کی تاریخ دیکھنی چاہیے۔ جمعہ کو طالبان حکومت کے قطر میں سفیر سہیل شاہین کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بھی ’اگر وہ ہم سے اچھے تعلقات، افغانستان میں سرمایہ  کاری، تجارت اور سفارتی تعلقات چاہتے ہیں تو ہم ان کو خوش آمدید کہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن اگر وہ لالچ پر مبنی مقاصد رکھتے ہیں تو انہیں برطانوی دور میں (افغانستان پر کیے جانے والے) حملے سے لے کر حالیہ امریکی حملے تک افغانستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے،وہ اس سے بہت کچھ سیکھیں گے۔ اس سے قبل افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار ذاکر جلالی نے ’ایکس‘ پر پوسٹ کیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ دوحا مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کے دوران اس نوعیت کے کسی امکان کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا۔ ذاکر جلالی نے مزید کہا کہ ’امریکا کے افغانستان کے کسی بھی حصے میں فوجی موجودگی برقرار رکھے بغیر‘ افغانستان اور امریکا باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اقتصادی اور سیاسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے یہ بیان امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ بیان کے ردعمل میں آیا ہے جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں موجود بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ کو چین کے نزدیک واقع اس فوجی اڈے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان کا بگرام ائربیس امریکا کودینے سے صاف انکار          
  • ٹرمپ کابگرام ایئربیس واپس لینے کابیان،چین کاردعمل سامنے آگیا
  • افغان عوام نے کبھی غیر ملکی فوجی موجودگی قبول نہیں کی، افغان وزارت خارجہ
  • صدر ٹرمپ کی بگرام ایئربیس پر قبضے کی خواہش، امریکا کیا کرنے والا ہے؟
  •  ہم افغان سرزمین پر امریکی افواج کی واپسی کو مسترد کرتے ہیں، بگرام ایئر بیس سے متعلق صدر ٹرمپ کے بیان پر افغانستان کا رد عمل
  • امریکا بگرام ائر بیس کی واپسی کیوں چاہتا ہے؟
  • اسرائیل اور غزہ کا معاملہ پیچیدہ ہے مگر حل ہوجائے گا، افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینا چاہتے ہیں، ٹرمپ
  • طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
  • افغانستان میں بگرام ایئربیس کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ