ملک میں نئے صوبے بنانے کا شور تو ہے لیکن عملی کام نہیں ہورہا، رانا ثنااللہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ ملک میں نئے صوبے بنانے کا شور تو ہے لیکن عملی کام نہیں ہورہا، نئے صوبوں بنانے کے لیے ایک آئینی طریقہ کار ہے۔
فیصل آباد میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تمام پارلیمنٹرین شہر فیصل آباد کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت صنعتکاروں کو درپیش تمام مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تاکہ معیشت کا پہیہ رواں رہے۔
یہ بھی پڑھیں: فیلڈ مارشل نے نئے صوبے بنانے کی بات کی، ایم کیو ایم اس کی حمایت کرتی ہے، مصطفیٰ کمال
رانا ثنااللہ نے دعویٰ کیا کہ شہر میں ترقیاتی منصوبوں کا تعطل سابق حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ 2018 کے بعد ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کے نتیجے میں پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے تک پہنچ گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ سابق حکومت کے دور میں ہوا، لیکن اگر یہ فیصلہ کرنا ہی تھا تو وقت پر کیوں نہ کیا گیا؟
انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت رواں برس عوام کو ریلیف اور سبسڈی دینا چاہتی تھی، مگر آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
دفاعی امور پر گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہم نے دشمن ملک کے مقابلے میں 6 ایٹمی دھماکے کیے اور معرکہ حق میں بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اب بھی امن کا خواہاں ہے اور حملہ نہیں کرے گا، تاہم دفاع ضرور کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: نئے صوبے 3 ٹیلی فون کی مار ہیں، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو فون کریں اور ترمیم کرالیں، حافظ نعیم
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سپہ سالار نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کا جواب پوری دنیا دیکھے گی۔ اور اس موقع پر سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر متحد تھی، جو دشمن کے مقابلے میں ملک کے دفاع کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews رانا ثنااللہ عملی اقدامات مشیر وزیراعظم نئے صوبے وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: رانا ثنااللہ عملی اقدامات وی نیوز رانا ثنااللہ انہوں نے نے کہا کے لیے
پڑھیں:
ہمیں سوچنا چاہیئے کہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں آمریت مضبوط ہوئی یا جمہوریت؟ مولانا فضل الرحمان
کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 ستمبر2025ء ) جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ میں سیاسی جماعتوں سے کہتا ہوں ہمیں سوچنا چاہیئے کہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں آمریت مضبوط ہوئی ہے یا جمہوریت؟۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آئین کو اکثر موم کی ناک بنا کر اس کی شکل تبدیل کی جاتی ہے، مارشل لا آئے تو پورے آئین کو لپیٹ کر اس کی وقعت کو ختم کردیا جاتا ہے، تشویش ہے پاکستان معاشی طورپر مزید کمزور ہورہا ہے، افغانستان کی معیشت بھی پاکستان سے بہتر ہے، ملک میں اگر امن نہیں ہوگا تو معیشت نہیں سنبھلے گی، اس کے لیے ہم سب کو مل کر چلنا ہوگا، ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی بحرانوں کا حل قومی سطح پر باہمی اعتماد اور اداروں کی جانب سے عوامی فیصلوں کے احترام میں ہے، اگر صلح کی تجویز آئے تو خدا کا حکم ہے کہ صلح کرو۔(جاری ہے)
مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ پورا خطہ ترقی کی جانب گامزن ہے لیکن پاکستان مسلسل معاشی زوال کی طرف بڑھ رہا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے، چاروں صوبوں میں میثاق پاکستان کا ایک ہی آئین ہے لیکن یہاں جب چاہا جاتا ہے اس آئین کی شکل تبدیل کر دی جاتی ہے، ہم ضیاء الحق کے مارشل لا کے دور سے جمہوریت کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں اور آج بھی وہی جدوجہد جاری ہے، اگر سیاست دان استقامت کا مظاہرہ کریں اور ادارے عوامی فیصلوں کو قبول کریں تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام اور ادارہ جاتی مداخلت نے نظام کو کمزور کر دیا ہے جسے درست کرنے کی اشد ضرورت ہے، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن ملکی سلامتی کے معاملے پر تمام قوتوں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا، اگر ملک میں امن قائم نہیں ہوتا تو معاشی بہتری ممکن نہیں اس لیے تمام ریاستی و سیاسی اداروں کو قومی مفاد میں متحد ہونا ہوگا، ایک اسلامی بلاک ہونا چاہیئے، او آئی سی علامتی بلاک ہے، پاکستان اور سعودی عرب میں مسلم امہ کی قیادت کی صلاحیت موجود ہے، پاک سعودی عرب معاہدے کو خوش آمدید کہنا چاہیے، مسلم دنیا میں جہاں خرابیاں ہیں انہیں ٹھیک کرنا ہوگا۔