غزہ: موت اور بھوک سے بے وسیلہ لوگوں کا پیدل فرار
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) غزہ شہر پر اسرائیل کے بڑھتے حملوں کے پیش نظر ہزاروں فلسطینی خاندان شمالی علاقوں سے نقل مکانی کر رہے ہیں جنہیں بدترین انسانی حالات اور نقل و حمل کے ذرائع کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے مطابق شمال سے جنوب کی جانب سفر پر 3,000 امریکی ڈالر سے زیادہ مالیت کے اخراجات ہوتے ہیں جس کے باعث بہت سے لوگوں کے لیے گاڑیوں پر جانا ممکن نہیں رہا اور وہ یہ طویل فاصلہ پیدل طے کر رہے ہیں۔
اس سفر کے لیے دستیاب واحد راستے شاہرہ الراشد پر لوگوں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے۔ بعض لوگ اپنا سازوسامان چھکڑوں پر لاد کر جا رہے ہیں جبکہ طویل فاصلہ طے کرنے والی تھکی ماندہ خواتین اور بچے راستے میں جا بجا سستاتے نظر آتے ہیں۔
(جاری ہے)
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ ایک ماہ کے دوران غزہ شہر سے ڈھائی لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے اور گزشتہ 72 گھنٹوں میں ہی 60 ہزار افراد نے انخلا کیا۔
لوگوں کے ہجوم میں چھڑی کے سہارے سست روی سے چلتے معمر شخص ابو نادر سیام نے بتایا کہ وہ غزہ شہر کے علاقے تل الہوا سے آ رہے ہیں جہاں کوئی گھر یا محلہ ایسا نہیں جو بمباری میں تباہ نہ ہوا ہو۔ علاقے میں حملے جاری ہیں اور پمفلٹ گرا کر شہریوں کو انخلا کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چھ گھنٹے پیدل چلتے رہے ہیں کیونکہ انہیں کوئی گاڑی نہیں ملی۔
ان کی اہلیہ، ذکیہ سیام بھی ان کے ساتھ ہیں جو شدید تھکن کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ نقل مکانی کر کے شجاعیہ کے علاقے میں گئے اور پھر وہاں سے بے گھر ہو کر الشعف چلے گئے، جس پر بعد میں بمباری ہوئی۔ اس کے بعد وہ غزہ شہر کے مغرب میں سمندر کے کنارے چلے آئے جہاں انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ دو راتیں خیمے کے بغیر گزاریں اور پھر جنوب کی جانب پیدل سفر شروع کر دیا۔
جنوبی غزہ کی جانب نقل مکانی کرنے والی ام شادی الاشقر نے بتایا کہ غزہ شہر میں موت کا راج ہے جہاں ہر طرف بمباری اور تباہی دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ لوگوں کو انخلا کے احکامات دینے کے لیے پمفلٹ گرائے گئے ہیں لیکن بمباری نہ ہو رہی ہوتی تو کوئی بھی غزہ شہر کو نہ چھوڑتا اور سب اپنے گھروں میں ہی رہتے۔
شمالی غزہ سے جنوب کی جانب سفر کرنے والے ایمن الخطیب نے بتایا کہ وہ جنگ میں اپنے خاندان کے 25 افراد کو کھو چکے ہیں جن میں زیادہ تر جبالیہ کیمپ کے محلے تل الزعتر میں مارے گئے۔
وہ خود چند زندہ بچ جانے والے رشتہ داروں کے ساتھ فرار ہوئے۔جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو ان کی پھوپھی نے ان کا بازو مضبوطی سے تھام رکھا تھا، جیسے انہیں کھو دینے کا خوف ہو۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بمباری کے دوران فرار ہوئے اور راستے میں انہیں کوئی گاڑی نہیں ملی۔ ایک گاڑی میں بیٹھنے کے لیے ان سے 2000 شیکل مانگے گئے لیکن ان پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ اب ان کے پاس نہ تو خیمہ ہے اور نہ ہی پناہ کا کوئی اور سامان، انہوں نے مدد کے لیے کئی لوگوں کو فون کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔
'انروا' کے مطابق، جنوبی غزہ میں جبری نقل مکانی کی اوسط لاگت فی خاندان 3,180 امریکی ڈالر بنتی ہے۔
غزہ میں ایندھن کی شدید قلت ہے، اور اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث سات مہینوں سے پناہ کا کوئی سامان علاقے میں نہیں آیا۔ گزشتہ ماہ، اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرے گا جہاں حالیہ ہفتوں میں بلند و بالا رہائشی عمارتوں پر بمباری میں تیزی آئی ہے اور لوگ ایک مرتبہ پھر ان علاقوں کی طرف جا رہے ہیں جہاں سے وہ چند ماہ قبل ہی واپس آئے تھے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نقل مکانی انہوں نے رہے ہیں کی جانب کے ساتھ کر رہے کے لیے
پڑھیں:
سالانہ 500 سے زائد لوگوں کی ہلاکت، افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟
افغانستان کے شہر مزارِ شریف کے قریب پیر کی صبح 6.3 شدت کا زلزلہ آیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد جاں بحق اور تقریباً 150 زخمی ہوگئے۔
یہ زلزلہ صرف چند ماہ بعد آیا ہے جب اگست کے آخر میں آنے والے زلزلے اور اس کے جھٹکوں سے 2 ہزار 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان: مزارِ شریف کے قریب زلزلہ، 7 افراد جاں بحق، 150 زخمی
افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پہاڑوں میں گھرا ہوا افغانستان مختلف قدرتی آفات کا شکار رہتا ہے، تاہم زلزلے سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک میں ہر سال اوسطاً 560 افراد زلزلوں سے جان کی بازی ہار دیتے ہیں، جب کہ سالانہ مالی نقصان کا تخمینہ تقریباً 8 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ 1990 سے اب تک افغانستان میں 5 شدت یا اس سے زیادہ کے 355 سے زائد زلزلے آ چکے ہیں۔
افغانستان یوریشیائی اور بھارتی ٹیکٹونک پلیٹس کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ دونوں پلیٹس ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں، جب کہ جنوب میں عرب پلیٹ کا اثر بھی موجود ہے۔ انہی پلیٹس کے باہمی دباؤ اور ٹکراؤ کے باعث یہ خطہ دنیا کے سب سے زیادہ زلزلہ خیز علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ بھارتی پلیٹ کا شمال کی طرف دباؤ اور اس کا یوریشیائی پلیٹ سے تصادم اکثر شدید زلزلوں کا باعث بنتا ہے۔
سب سے زیادہ متاثرہ علاقےمشرقی اور شمال مشرقی افغانستان، خصوصاً پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحدوں سے متصل علاقے، زلزلوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دارالحکومت کابل بھی ایک خطرناک زون میں واقع ہے، جہاں ہر سال زلزلوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر لگایا گیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں زلزلے زمین کھسکنے کا باعث بنتے ہیں، جس سے جانی نقصان میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعلیٰ گنڈا پور کا افغانستان کے زلزلہ متاثرین کے لیے مزید 1000 خیمے بھیجے کا اعلان
افغانستان کے بدترین زلزلےگزشتہ ایک صدی میں افغانستان میں تقریباً سو بڑے تباہ کن زلزلے آ چکے ہیں۔ 2022 میں 6 شدت کے زلزلے نے 1000 افراد کی جان لی، جب کہ 2023 میں ایک ہی مہینے میں آنے والے کئی زلزلوں نے 1000 سے زائد افراد کو ہلاک اور درجنوں دیہات کو تباہ کر دیا۔ 2015 میں 7.5 شدت کے زلزلے سے افغانستان، پاکستان اور بھارت میں 399 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 1998 میں 3 ماہ کے دوران 2 بڑے زلزلوں نے 7 ہزار سے زائد افراد کی جان لے لی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں