مٹیاری،بندوں کو کوئی خطرہ نہیں،سپر فلڈ برداشت کرسکتے ہیں،یوسف شیخ
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مٹیاری(نمائندہ جسارت)ڈپٹی کمشنر مٹیاری محمد یوسف شیخ نے آج ضلع مٹیاری ضلع کے حدود میں سے گزرنے والے دریائے سندھ کے بند کے مختلف مقامات گھلیان،، بھانوٹھ 135/7، ایلیان 155/5، فتح پور لوپ بند اور 142/5 کا معائنہ کیا اور بند کی مضبوطی کے لیے ٹی اسپر پر جاری کام کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر محکمہ آبپاشی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر غلام محی الدین مغل نے ڈی سی مٹیاری کو بند کی مضبوطی کے لیے جاری اسٹون پچنگ، ٹی اسپر پر مزید بہاری پتھروں کی بھرائی سمیت دیگر انتظامی امور کے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔انہوں نے انہیں بتایا کہ اس وقت ہمارے پاس سے 350000 کیوسک پانی کا بہاؤ گزر رہا ہے اور اگر بہاؤ میں اضافہ بھی ہوتا ہے تب بھی ہمارے بندوں کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ بندوں کو سپر فلڈ کے دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل مضبوط بنایا گیا ہے۔ اس موقع پرمحکمہ آبپاشی کے ایگزیکٹو انجینئر پیر صلاح الدین نے ڈی سی کو بند کی نگرانی کے لیے بند پر قائم لانڈھیوں، آبکلا کے سامان اور دستیاب بہاری مشینری اور ڈیوٹی پر موجود عملے کے متعلق بریفنگ دی۔بعدازیںڈی سی نے محکمہ صحت، لائیو اسٹاک اور پولٹری پروڈکشن کی جانب سے لگائے گئے میڈیکل کیمپس کا دورہ کیا جہاں انہوں نے کچے سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں اور بند کے کنارے آباد دیہات کے مکینوں اور ان کے مویشیوں اور گھریلو پرندوں کے علاج معالجے کی سہولیات کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر محکمہ صحت کے افسران نے انہیں بتایا کہ اب تک مختلف مقامات پر 70 میڈیکل کیمپس لگائے گئے ہیں جبکہ گشتی میڈیکل ٹیمیں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو علاج کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں اور اب تک 1740 افراد کا علاج کیا گیا ہے اور ان کے ضروری ٹیسٹ بھی کیے گئے ہیں۔اس موقع پر ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو اسٹاک مٹیاری ریاض احمد لغاری نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ لائیو اسٹاک ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 6 کیمپس بھانوٹھ۔ ?ل?ان، س?کھا?، ?الا پرا?ا، امین لاکھو اور بدر لاکھو میں دن رات کام کر رہے ہیں جبکہ تین گشتی ٹیمیں بھی مختلف علاقوں میں مویش? مالکان کی رہنمائی اور ان کے مویشیوں کے علاج کے لیے سرگرم ہیں۔ اب تک 105000 مویشیوں کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین کی گئی ہے، 2500 سے زائد مویشیوں کا علاج کیا گیا ہے جبکہ 32000 سے زائد مویشیوں کو کچے سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔پولٹری پروڈکشن کے لگائے گئے کیمپ کے دورے کے دوران ڈی سی کو بتایا گیا کہ اب تک 19000 سے زائد گھریلو پرندوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔ دی گئی بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ڈی سی نے ہدایت کی کہ موجودہ سیلابی صورتحال میں تمام محکمے آپس میں قریبی رابطہ رکھیں اور عوام کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کو یقینی بنائیں۔ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ مکمل طور پر الرٹ ہے اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ممکنہ صورتحال میں عوام کو امدادی کیمپس میں منتقل کرنے کے لیے فی الحال 12 امدادی کیمپس قائم کیے گئے ہیں جبکہ 110 امدادی کیمپس کی نشاندہی بھی کی جا چکی ہے، تاہم ابھی تک کوئی بھی امدادی کیمپ میں منتقل نہیں ہوا کیونکہ لوگ اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہائش کو ترجیح دے رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، تمام متعلقہ محکمے رابطے میں ہیں اور دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے۔ڈی سی مٹیاری محمد یوسف شیخ نے بند کے قریب رہنے والے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلا جواز بند پر گھومنے یا بچوں کو ساتھ لانے سے گریز کریں کیونکہ دریاء سندھ میں پانی کے اْتار چڑھاؤ کا عمل جاری ہے، لہذہ احتیاط لازمی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے علاج کی کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)