مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں فوجیوں کی تعیناتی کے باوجود کشمیری بھارت کے خلاف برسرپیکار
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
اربوں کا بجٹ، لاکھوں فوجیوں کی تعیناتی اور ظلم و بربریت کے باوجود بھارت کشمیروں کے دلوں میں اپنا خوف نہیں بٹھا سکا۔
مجاہدین آزادی کے ہاتھوں اپنی سبکی کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے ہمیشہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کو بڑھاوا دیا، مگر ہر بار منہ کی کھائی۔
جب بھارت کی ہرکوشش ناکام گئی، تو پارلیمان کو استعمال کرتے ہوئےمودی سرکار نے 5 اگست 2019 کو آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کردیا۔ اور یوں عوام کی امنگوں کو کچلتے ہوئے زور زبردستی سے کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا گیا۔
آج یوم امن کے موقع پر لہو سے رستا کشمیر عالمی برادری سے یہ سوال کرتا ہے کہ اسے امن کب نصیب ہوگا؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بھارتی فوجی تحریک آزادی کشمیر ظلم و بربریت مقبوضہ کشمیر وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارتی فوجی تحریک ا زادی کشمیر ظلم و بربریت وی نیوز
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مشہور زعفران سیکٹر ایک بار پھر شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی پیداوار میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے پامپور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زعفران کی پیداوار بمشکل 10 تا 15 فیصد ہے اور ہزاروں خاندان معاشی بدحالی کے دہانے پر ہیں۔ پامپور جہاں زعفران کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے، کے کاشتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صدیوں سے کشمیر کی شناخت کی حامل زعفران کی فصل ختم ہو سکتی ہے۔ ”زعفران گروورز ایسوسی ایشن جموں و کشمیر“ کے صدر عبدالمجید وانی نے کہا کہ پیداوار بمشکل 15 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی فصل کا نصف بھی نہیں ہے، جو بذات خود عام فصل کا صرف 30 فیصد تھا۔ ہر سال اس میں کمی آ رہی ہے اور حکومت اس شعبے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بار بار کی خشک سالی، موثر آبپاشی کی کمی اور دستیاب کوارمز کا خراب معیار ہے۔ کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ پامپور کے پریشان کسانوں کے ایک گروپ نے کہا، "زعفران کی بحالی صرف فصل کو بچانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک روایت، ایک ثقافت اور ایک شناخت کو بچانے کے بارے میں ہے اور اگر فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک پامپور میں زعفران نہیں بچے گا۔