سیلاب کی تباہ کاریاں :سندھ کی درجنوں دیہات زیرِ آب, فصلیں تباہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
سٹی42: پنجاب میں 86.12 ارب روپے کے بھاری نقصان کے بعد سیلابی پانی اب سندھ میں داخل ہو چکا ہے، جس کے باعث دریائے سندھ میں کوٹری کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سیلابی ریلوں نے درجنوں دیہات زیرِ آب کر دیے اور کھڑی فصلیں تباہ کر ڈالیں۔
دادو کے کچہ علاقے کے مزید 50 دیہات سیلاب کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، جب کہ دادو اور میہڑ کے درمیان سڑک کا زمینی رابطہ بھی مکمل طور پر منقطع ہو چکا ہے۔اسی طرح سجاول اور ٹھٹھہ کے کچہ علاقوں کے دیہات بھی زیرِ آب آ گئے ہیں، جہاں مقامی افراد شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
جلد کے ٹیٹوز سے اکتا کر چینی نوجوان دانتوں پر ٹیٹوز بنوانے لگے
ادھر اوباڑو اور اس کے نواحی علاقوں میں سیلاب کے بعد جلدی امراض کی وبا پھوٹ پڑی ہے، جبکہ تحصیل ہسپتال میں ادویات کی شدید قلت عوام کے لیے ایک اور مصیبت بن چکی ہے۔ مقامی لوگوں نے حکومت سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے تاکہ صحت کی سہولیات مہیا کی جا سکیں۔احمد پور سیال کے علاقے سمندوانہ میں بند ٹوٹنے سے درجنوں دیہات پانی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ بند کے ٹوٹنے سے نہ صرف فصلیں تباہ ہوئیں بلکہ علاقے میں موجود ایک پٹرول پمپ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
بنگلادیش کرکٹ بورڈ میں پہلی مرتبہ خاتون سلیکٹر کا تقرر
دریائے ستلج نے بہاولپور کے قریب واقع قائم پور میں شدید تباہی مچائی ہے، جہاں تاحال کوئی ریسکیو ٹیم نہیں پہنچی۔ نور پور گاؤں کے مکین امداد کے منتظر ہیں اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔بورے والا اور لڈن میں پانی کی سطح میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، مگر متاثرہ افراد کی مشکلات جوں کی توں برقرار ہیں۔ لوگوں نے امید باندھ رکھی ہے کہ حکومت انہیں سہارا دے گی تاکہ وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔
چودھری شجاعت نے باڈی بلڈرز فیڈریشن کے چیئرمین بننے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیدیا
پاکپتن اور قبولہ میں متاثرہ افراد جب واپس اپنے گھروں کو پہنچے تو تباہ شدہ مکانات اور برباد فصلیں دیکھ کر دل گرفتہ ہو گئے۔
پنجاب میں سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان گھروں اور فصلوں کو پہنچا ہے۔حکام کے مطابق گھروں کو پہنچنے والا نقصان 47.
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42
پڑھیں:
دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے ایک بار پھر تباہ شدہ اسکولوں کا رخ کرنے لگے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد غزہ کے بچے بتدریج اپنی برباد شدہ درسگاہوں کی جانب لوٹنے لگے ہیں، جہاں ایک بار پھر تعلیم کی شمع روشن ہونے لگی ہے۔ جنگ بندی کے بعد تعلیم کی بحالی نے نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے دلوں میں بھی نئی اُمید پیدا کر دی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایجنسی اُنروا نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد غزہ میں بعض اسکول جزوی طور پر دوبارہ کھول دیے گئے ہیں، جہاں بچے عارضی کلاس رومز میں تعلیمی سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں۔
اُنروا کے سربراہ فلپ لزارینی کے مطابق اب تک 25 ہزار سے زائد طلبہ عارضی تعلیمی مراکز میں واپس آچکے ہیں، جبکہ تقریباً 3 لاکھ بچے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ادارے کے مطابق غزہ کے علاقے نصیرات میں واقع الحصینہ اسکول میں تدریسی عمل بحال کر دیا گیا ہے، اگرچہ عمارت اب بھی تباہ شدہ ہے اور کمروں کی شدید قلت ہے۔
عرب میڈیا سے گفتگو میں 11 سالہ فلسطینی بچی وردہ نے کہا کہ “میں اب چھٹی جماعت میں ہوں، لیکن جنگ اور نقل مکانی نے میری دو سال کی تعلیم چھین لی۔” اُس نے بتایا کہ اسکول اب آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے، اور جیسے ہی عمارت خالی ہوگی، کلاسز معمول کے مطابق جاری ہو سکیں گی۔
رپورٹ کے مطابق تدریس کے ابتدائی دنوں میں ایک ہی کمرے میں پچاس سے زائد طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں، نہ میزیں ہیں نہ کرسیاں، صرف زمین پر بیٹھ کر وہ نوٹ بک میں لکھنے پر مجبور ہیں۔
سخت حالات، محدود وسائل اور ادھڑی عمارتوں کے باوجود غزہ کے بچوں نے ہار نہ مانی۔ وہ علم کے ذریعے اپنی برباد دنیا کو ازسرِنو روشن کرنے کے عزم کے ساتھ اسکولوں کا رُخ کر رہے ہیں — اس اُمید کے ساتھ کہ شاید تعلیم ہی اُن کے مستقبل میں امن کی کرن بن سکے۔