چنئی میں ایک بڑے احتجاجی جلوس اور جلسے سے اپنے خطاب میں اداکار پراکش راج نے کہا کہ آج فلسطین میں جو ظلم ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری صرف اسرائیل پر نہیں بلکہ امریکا پر بھی ہے، اور مودی کی خاموشی بھی اتنی ہی مجرمانہ ہے، جب زخم لگے اور ہم خاموش رہیں تو وہ مزید بگڑ جاتا ہے، اسی طرح اگر کسی قوم پر ظلم ہو اور دنیا خاموش رہے تو یہ خاموشی اس زخم کو اور گہرا کر دیتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکاروں اور شخصیات نے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کے خلاف سخت ردعمل دیتے ہوئے امریکا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اس ظلم کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق 19 ستمبر کو چنئی میں ایک بڑے احتجاجی جلوس اور جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں ریاست تامل ناڈو کی مختلف سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں، دانشوروں اور فنکاروں نے شرکت کی، مظاہرے میں معروف اداکار ستھیاراج، پراکش راج اور فلم ساز ویتری ماران سمیت متعدد اہم شخصیات شریک ہوئیں۔

اداکار پراکش راج نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ اجتماع انسانیت کے لیے آواز بلند کرنے والوں کا ہے، اگر ناانصافی کے خلاف بولنا سیاست ہے تو ہاں یہ سیاست ہے اور ہم ضرور بولیں گے، انہوں نے ایک پراثر نظم بھی سنائی جس میں جنگوں کے نتیجے میں ماؤں، بیویوں اور بچوں کی زندگیوں پر پڑنے والے کرب کو اجاگر کیا گیا۔ پراکش راج نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا اور بھارتی وزیر اعظم مودی پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطین میں جو ظلم ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری صرف اسرائیل پر نہیں بلکہ امریکا پر بھی ہے، اور مودی کی خاموشی بھی اتنی ہی مجرمانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب زخم لگے اور ہم خاموش رہیں تو وہ مزید بگڑ جاتا ہے، اسی طرح اگر کسی قوم پر ظلم ہو اور دنیا خاموش رہے تو یہ خاموشی اس زخم کو اور گہرا کر دیتی ہے۔

اداکار ستھیاراج نے غزہ میں قتل و غارت کو ناقابلِ برداشت اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ پر بمباری کس طرح کی جا سکتی ہے؟ انسانیت کہاں گئی؟ یہ لوگ ایسا ظلم کر کے سکون سے کیسے سو جاتے ہیں؟ انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ فوری مداخلت کر کے اس قتل عام کو روکا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر فنکار اپنی شہرت کو انسانیت اور آزادی کے کام میں نہ لگائیں تو ایسی شہرت کا کوئی فائدہ نہیں۔

فلم ساز ویتری ماران نے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کو ایک منصوبہ بند نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بم نہ صرف گھروں بلکہ اسکولوں اور اسپتالوں پر برسائے جا رہے ہیں، حتیٰ کہ زیتون کے درخت بھی تباہ کیے جا رہے ہیں جو وہاں کے لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔ مقررین نے اس موقع پر زور دیا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا ایک طاقتور ہتھیار ہے اور چنئی سے اٹھنے والی یہ آواز پوری دنیا تک پہنچے گی۔ آخر میں شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں امریکا اور اسرائیل امداد کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ مسلم حکمران بدترین بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطین میں پراکش راج انہوں نے رہے ہیں کہا کہ ظلم ہو

پڑھیں:

غزہ کی پکار

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عرب دنیا میں ایک ہلچل مچی اور صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مستقبل کے خطرناک عزائم کے آگے بند باندھنے کے لیے عرب ملکوں کا ہنگامی سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا۔

دوحہ میں ہونے والے اس اجلاس میں شریک عرب ممالک کے سربراہوں نے حسب سابق گرم جوش تقاریر کیں اور اسرائیل کے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے لے کر نیتن یاہو کے جنگی جرائم تک کا احاطہ کرتے ہوئے عرب سربراہوں نے اسرائیل کے تمام جارحانہ اقدامات اور اس کے مستقبل کے خوف ناک عزائم کی پرزور الفاظ میں بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ امریکا پر واضح کیا کہ آیندہ اگر اسرائیل نے کسی عرب ملک پر جارحیت کا ارتکاب کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔

اس ضمن میں عرب سربراہی اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ قطر پر حملہ کر کے اسرائیل نے تمام ریڈ لائن کراس کر لی ہیں اسے اب کٹہرے میں لانا ہوگا۔ اعلامیے میں تمام ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے تمام موثر قانونی اقدامات اٹھائیں جن میں سرفہرست سفارتی اور اقتصادی تعلقات پر نظرثانی کرنا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنا شامل ہے۔

رکن ممالک میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ اسرائیلی جنگی جرائم روکنے کے لیے عرب اسلامی ٹاسک فورس کے قیام کی بھی تجویز اعلامیے کا حصہ ہے۔

عرب سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان قطر کے ساتھ کھڑا ہے، ہمیں خاموش رہنے کے بجائے متحد ہونا پڑے گا اور اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو اسرائیلی بربریت نہیں رکے گی۔ وزیر اعظم نے اسرائیل کے خلاف عرب ملکوں کی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرنے کی تجویز کو بھی صائب قرار دیا۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے کہا کہ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اسرائیلی جارحیت کا مقصد غزہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے۔

فلسطینی صدر محمد عباس کا کہنا تھا کہ صورتحال کی نزاکت اور سنگینی کا تقاضا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنا اور وہاں فوری امداد کی فراہمی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکریٹری جنرل حسین طہٰ نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کو اس کے تمام جرائم کا جواب دہ ٹھہرایا جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا عرب سربراہی اجلاس میں جو تجاویز اعلامیے کی شکل میں سامنے آئی ہیں، ان پر عمل درآمد کے لیے آنے والے دنوں میں کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر آپ ماضی قریب و بعید پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ فلسطین اور لبنان ایک سے زائد مرتبہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور درجنوں مرتبہ او آئی سی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔

اسرائیل کے خلاف عرب سربراہوں نے پرجوش تقاریر کیں اور اسرائیل کے خلاف اقدامات کے اعلانات بھی کیے گئے، لیکن بات نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے کچھ نہ بڑھ سکی اور اسرائیل نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی آشیرباد سے فلسطین کے خلاف جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ابھی ایک طرف عربوں کے ہنگامی سربراہی اجلاس کی گونج ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اسرائیل نے غزہ شہر کے مرکز میں قدم رکھ دیے۔

فضائی و زمینی حملہ کرکے صہیونی فوج نے غزہ سٹی کے باسیوں کو فوری طور پر شہر خالی کرنے کی دھمکی دے کر انھیں بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق تقریباً 40 فی صد فلسطینی باشندوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور شہر خالی کروانا شروع کر دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے قیدیوں کو ڈھال بنایا تو وہ مصیبت میں پڑ جائے گی۔

اقوام متحدہ سمیت یورپی یونین، برطانیہ اور جرمنی نے اسرائیل کے اس جنگی اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کے لیے اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے ممکنہ خطرناک عزائم اور بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ گریٹر اسرائیل قدم کے آگے ہمالیہ جیسی رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔ غزہ کے معصوم، بھوک و پیاس سے سسکتے بچوں کی پکار کو سننا ہوگا۔

 سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کے لیے ایک بڑی خبر ہے۔ کیا سعودی عرب اور پاکستان مل کر فلسطین کو اسرائیلی مظالم سے نجات دلانے میں کوئی سرگرم کردار ادا کر سکیں گے؟ اس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی اداکاروں کا فلسطین میں نسل کشی کیخلاف احتجاج، اسرائیل، امریکا اور مودی  ذمہ دارقرار
  • صرف اسرائیل نہیں فلسطین پر ہونے والے مظالم میں امریکا اور مودی بھی قصوروارہیں، بھارتی اداکار بھی بول اٹھے
  • پرتگال سمیت 10 ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کو تیار
  • فرانس : بجٹ کٹوتیوں کیخلاف ملک گیر احتجاج‘100 سے زائد زخمی
  • غزہ کی پکار
  • بھارت میں گول گپوں کا تنازع، پولیس کو بیچ میں کودنا پڑا
  • فرانس میں بجٹ کٹوتیوں کیخلاف ملک گیر احتجاج، آنسو گیس شیلنگ سے 100 زخمی
  • سکھ برادری کا  کینیڈا میں احتجاج ؛ بھارت کے خفیہ نیٹ ورکس کا عالمی سطح پر پردہ چاک
  • فلسطین کی آواز ہر فورم پر بلند کریں گے، ترک صدر کا اسرائیلی جارحیت پر اعلان