بلوچستان میں ڈرپ اریگیشن کا کامیاب آغاز، خشک سالی میں نئی امید
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
بلوچستان میں پانی کی تیزی سے گرتی ہوئی سطح اور مسلسل 8 ماہ سے بارش نہ ہونے کے باعث صوبہ شدید خشک سالی کا شکار ہے، جس سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
ایسے وقت میں انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ نے یورپی یونین کے اشتراک سے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے انگور کی کاشت کو روایتی طریقوں سے ہٹا کر جدید ڈرپ ایریگیشن یعنی قطرہ قطرہ آبپاشی کے نظام پر منتقل کردیا ہے۔
ضلع پشین میں اس نظام کے تحت لگائے گئے انگور کے باغات اب پھل دینے لگے ہیں، جو زمینداروں کے لیے حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔
مقامی باغبان علی احمد نے بتایا کہ ڈرپ اریگیشن سے 90 فیصد تک پانی کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے اور پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے مطابق اس جدید نظام نے روایتی جوہڑوں اور نہری نظام کے مقابلے میں کم پانی میں زیادہ رقبے کو سیراب کرنا ممکن بنایا ہے۔
’یہ نظام بہت زبردست ہے، ہم خود بھی اس پرعمل کریں گے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں گے۔‘
انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ سے بطور ریسرچر وابستہ عبدالرشید نے بتایا کہ پشین کے واٹر بیسن میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روایتی آبپاشی کے مقابلے میں ڈرپ اریگیشن 90 فیصد مؤثر ہے جبکہ پرانا نظام صرف 40 سے 50 فیصد مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
’یہ وقت کی اہم ضرورت ہے، اس کے بغیر زمینداروں کا کوئی چارہ نہیں۔‘
انہوں نے مزید مشورہ دیا کہ کاشتکار اس نظام کے ساتھ ساتھ کنزرویشن ایگریکلچر پر بھی توجہ دیں تاکہ زمین کی نمی برقرار رہ سکے۔
ماہرین کے مطابق ڈرپ اریگیشن سسٹم نہ صرف پانی کی کمی کا مؤثر حل فراہم کرتا ہے بلکہ اس کے ذریعے کسانوں کو مالی طور پر مستحکم کرنے اور صوبے میں زراعت کو نئی زندگی دینے میں بھی مدد ملے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈرپ اریگیشن
پڑھیں:
پائیدار ترقی کیلئے امن اور مؤثر قانون سازی ناگزیر ہے، شیری رحمن
اسلام آباد:پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن شیری رحمان نے کہا ہے کہ دنیا تیزی سے غیر معمولی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، ایسے وقت میں پائیدار ترقی کے لیے امن اور مؤثر قانون سازی ناگزیر ہو چکی ہے۔
پائیدار ترقی پالیسی ادارہ (ایس ڈی پی آئی) کی 28ویں سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس کے دوسرے روز ماحولیاتی تبدیلی، عالمی امن، گرین فنانسنگ اور پائیدار ترقی کے موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ سماجی و سیاسی خلا کی موجودگی میں حقیقی ترقی ممکن نہیں۔
عالمی منظرنامے پر بڑھتی عسکری ترجیحات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیٹو ممالک نے دفاع کے لیے جی ڈی پی کا 5 فیصد مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے واضح ہے کہ دنیا دوبارہ جنگوں کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کا براہِ راست اثر ترقیاتی اور موسمیاتی فنڈنگ پر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی چیلنجز شدید ہوتے جا رہے ہیں خاص طور پر بلوچستان اور سندھ میں درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کی تازہ رپورٹ (این ڈی سی ) میں بتایا گیا ہے کہ ملک کو انرجی ٹرانزیشن کے لیے 565 ارب ڈالر درکار ہیں۔
شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی ترقی کے لیے آنے والی امداد زیادہ تر قرض کی صورت میں ہے جبکہ گرین فنانسنگ کے حصول کے لیے پاکستان کو بڑے ممالک کے ساتھ سخت مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ہمیں یہ سوال اٹھانا ہوگا کہ وعدوں کے باوجود کلائمیٹ فنانس کہاں جا رہا ہے اور گرین فنڈز کس کو مل رہے ہیں۔
سینیٹر شیری رحمان نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ملک میں سولر جنریشن کے ذریعے ری نیوایبل انرجی کے شعبے میں نمایاں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔