کے فور منصوبے میں تاخیر، آڈٹ رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250922-03-3
کراچی برسوں سے پانی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ آبادی تیزی سے بڑھتی رہی، صنعتیں پھیلتی گئیں لیکن پانی کے ذرائع اور سپلائی سسٹم اسی پرانے ڈھانچے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے۔ اس وقت شہر کو روزانہ تقریباً 1200 ملین گیلن پانی درکار ہے جبکہ فراہمی بمشکل 650 ملین گیلن تک محدود ہے۔ یہی پس منظر تھا جس میں کے فور منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ لیکن افسوس، یہ منصوبہ دو دہائیوں بعد بھی اپنی تکمیل کو ترس رہا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ اس حقیقت کو مزید بیان کرتی ہے کہ کے فور منصوبے میں بدانتظامی، تاخیر اور وسائل کے ضیاع نے کراچی کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر منصوبہ بروقت مکمل نہ ہوا تو 2025-26 میں کراچی میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق کے فور کے فیز ون کو 8 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، مگر اب تک صرف 45 فی صد تک کام مکمل ہوسکا ہے۔ تین فلٹریشن اسٹیشنوں پر صرف 25 فی صد پیش رفت، پمپنگ اسٹیشن پر محض 26 فی صد اور پائپ لائن بچھانے کے دو حصوں میں 50 فی صد سے کچھ زیادہ ترقی۔ یہ کارکردگی ایسے وقت میں سامنے آئی جب اس منصوبے کو فروری 2024 تک مکمل ہونا تھا۔ مزید یہ کہ تاخیر کے باوجود پروجیکٹ ڈائریکٹر کے لیے چھے کروڑ روپے کی چار لگژری گاڑیاں خریدی گئیں۔ انتظامیہ نے جواز دیا کہ یہ غیر ملکی ماہرین کی سہولت کے لیے تھیں، مگر آڈیٹر جنرل نے اس وضاحت کو ناکافی اور غیر قانونی قرار دیا۔ یہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ عوامی ضرورت کے اس اہم منصوبے کو بھی بیوروکریسی اور ٹھیکیداری سیاست نے ایک بار پھر تختۂ مشق بنا ڈالا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 2021 میں کراچی کو ’’پیرس بنانے‘‘ کا وعدہ کیا تھا۔ مگر آج صورتحال یہ ہے کہ کے- فور جیسے زندگی کے لیے ناگزیر منصوبے کے لیے وفاقی بجٹ میں محض 3.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے فور منصوبے نعمت اللہ خان کراچی کے پانی کے کے لیے
پڑھیں:
این ڈی آر ایم ایف کے 6.5 ارب روپے کے منصوبے مکمل، قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ
نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ (این ڈی آر ایم ایف) نے 2018 سے 2024 کے دوران پاکستان بھر میں 16 بڑے منصوبے مکمل کیے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 6.5 ارب روپے سے زائد ہے۔
یہ منصوبے ملک کو قدرتی آفات خصوصاً سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، خشک سالی اور دیگر موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ صوبائی و ضلعی سطح پر ریسکیو اور ایمرجنسی خدمات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا انسان کبھی قدرتی آفات سے محفوظ رہ سکے گا؟
سرکاری دستاویزات کے مطابق منصوبوں میں ڈھانچہ جاتی اقدامات جیسے حفاظتی بندوں کی تعمیر اور بحالی کے ساتھ غیر ڈھانچہ جاتی اقدامات بھی شامل تھے، جن میں ابتدائی وارننگ سسٹمز، کمیونٹی کی سطح پر آفات سے نمٹنے کی تربیت اور آگاہی پروگرام شامل ہیں۔
منصوبے کہاں مکمل ہوئے؟یہ تمام منصوبے قومی و بین الاقوامی شراکت دار اداروں کے تعاون سے بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے پسماندہ اور حساس اضلاع میں مکمل کیے گئے۔بلوچستان میں 20 کروڑ 19 لاکھ روپے کے منصوبے کوئٹہ اور چاغی میں سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ کے ڈھانچے مضبوط بنانے کے لیے مکمل کیے گئے۔
ضلع قلعہ سیف اللہ میں 40 کروڑ 7 لاکھ روپے کی لاگت سے کمیونٹی کی سطح پر آفات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا گیا۔ آزاد کشمیر میں ایک ارب روپے سے زائد مالیت کے منصوبے پونچھ، نیلم، باغ، جہلم اور ہٹیاں بالا اضلاع میں لینڈ سلائیڈنگ روکنے اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے نافذ کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: مون سون کے دوران کتنی اموات اور کیا کیا نقصانات ہوئے؟ این ڈی ایم اے نے تفصیلات جاری کردیں
سندھ میں 68 کروڑ 50 لاکھ روپے کے منصوبے سیلابی حفاظتی اقدامات کے لیے مختص کیے گئے، جن کے تحت ضلع لاڑکانہ میں ہاجی پور اور آگانی اسپرس سمیت مختلف حفاظتی بندوں کی مرمت اور بحالی کی گئی تاکہ دریائی علاقوں میں رہنے والے عوام کو بچایا جا سکے۔
پنجاب میں اقداماتپنجاب میں 65 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے منصوبوں کے تحت نارووال میں بین نالہ اور جلیالہ حفاظتی بند جبکہ شیخوپورہ میں ڈی ای جی نالہ کی بحالی کی گئی۔سب سے اہم منصوبوں میں سے ایک خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں ریسکیو 1122 خدمات کی توسیع تھی۔
اس مقصد کے لیے 2 ارب 26 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے منصوبے مکمل کیے گئے جن کے تحت جی بی کے 10 اضلاع اور کے پی کے 35 اضلاع بشمول ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ایمرجنسی رسپانس نظام کو جدید بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی: اس کا مطلب اور فائدہ کیا ہے؟
اس میں گاڑیوں کی فراہمی، ریسکیو آلات کی خریداری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے تاکہ ہنگامی حالات میں فوری اور مؤثر ردعمل یقینی بنایا جا سکے۔ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے لیے تقریباً 98 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے شمالی پاکستان میں مربوط پہاڑی تحفظ کے منصوبے کے دو مرحلے مکمل کیے گئے۔
آغا خان ایجنسیاں اس منصوبے کو نافذ کرنے میں پیش پیش رہیں، جس کے تحت عمارتوں کی مضبوطی، مقامی سطح پر آفات سے نمٹنے کی تیاری اور ابتدائی وارننگ سسٹمز نصب کیے گئے۔
یہ منصوبے نہ صرف آفات سے نقصانات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے بلکہ زرعی اراضی، اہم انفراسٹرکچر اور مقامی آبادی کو موسمیاتی جھٹکوں سے بچا کر ملکی معیشت کو بھی مضبوط کیا۔
خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے لاکھوں شہری براہِ راست مستفید ہوں گےریسکیو 1122 کی توسیع سے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے لاکھوں شہری براہِ راست مستفید ہوں گے، جہاں ایمرجنسی کے دوران بروقت ریسکیو، جان بچانے والی سہولتوں کی فراہمی اور اقتصادی نقصانات میں کمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
یہ تمام منصوبے این ڈی آر ایم ایف کے فریم ورک کے تحت وفاقی حکومت کی معاونت سے ملکی و غیر ملکی وسائل کو بروئے کار لا کر مکمل کیے گئے ہیں تاکہ پاکستان کو مستقبل میں قدرتی آفات کے خطرات کے مقابلے کے لیے مزید مضبوط بنایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news این ڈی آر ایم ایف خیبرپختونخوا سیلاب قدرتی آفات گلگت بلتستان نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ