سپریم کورٹ: 26ویں ترمیم پر فل کورٹ تشکیل کے معاملے میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کی درخواست کیوں واپس کی؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ تشکیل کے لیے مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے دائر درخواست پر اعتراضات عائد کرتے ہوئے اسے واپس کردیا۔
عدالتی اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی، تاہم اس میں عوامی اہمیت کے کسی معاملے کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
مزید پڑھیں: مصطفیٰ نواز کھوکھر کی ممکنہ سیاسی جماعت میں کون شامل ہوں گے؟
اعتراضات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انفرادی شکایت کو 184(3) کے تحت نہیں لایا جا سکتا اور درخواست گزار عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ جبکہ ایک ہی درخواست میں متعدد استدعائیں کی گئی ہیں، جو قابلِ سماعت نہیں۔
واضح رہے کہ مصطفی نواز کھوکھر نے اپنی درخواست میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے 31 اکتوبر کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا کی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
26ویں ترمیم سپریم کورٹ مصطفیٰ نواز کھوکھر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 26ویں ترمیم سپریم کورٹ مصطفی نواز کھوکھر نواز کھوکھر
پڑھیں:
جسٹس طارق جہانگیری سمیت 5 ججز نے جسٹس سرفراز ڈوگر کے اقدامات سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیئے
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جسٹس طارق محمود جہانگیری سمیت 5 ججز نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے مختلف اقدامات سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیئے ہیں۔ جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس اعجاز اسحاق اور جسٹس سمن رفعت امتیاز سپریم کورٹ پہنچے۔ پانچوں ججز نے انفرادی اپیلیں دائر کیں۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کام سے روکنے کے خلاف پٹیشن دائر کی جبکہ دیگر 4 ججز نے جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف الگ الگ درخواستیں دائر کیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے آرٹیکل 184/3 کے تحت درخواست دائر کی۔ درخواست میں چیف جسٹس اسلام آباد سمیت وفاق کو فریق بنایا گیا ہے اور موقف اپنایا گیا کہ جج کو کام سے روکنے کی درخواست ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں، جج کو صرف آرٹیکل 209 کے تحت کام سے روکا جا سکتا ہے۔ پانچ ججز نے درخواست میں استدعا کی کہ قرار دیا جائے کہ چیف جسٹس انتظامی اختیارات سے ججز کے عدالتی اختیارات ختم نہیں کر سکتے، چیف جسٹس چلتے مقدمات دوسرے بینچز کو منتقل نہیں کر سکتے اور چیف جسٹس دستیاب ججز کو روسٹر سے نکال نہیں سکتے۔ انتظامی کمیٹیوں کے تین فروری اور 15جولائی کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جائیں، انتظامی کمیٹیوں کے اقدامات بھی کالعدم قرار دیے جائیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ رولز غیر قانونی قرار دیئے جائیں۔