سپریم کورٹ: رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستیں اعتراضات لگاکر واپس کردیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججز کی درخواستیں پر اعتراضات عائد کر کے واپس کردیں۔
ذرائع کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ آفس نے پانچوں ججز کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزار نے واضح نہیں کیا کہ درخواستوں میں کونسا مفاد عامہ کا سوال ہے، درخواست گزار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے کہ آرٹیکل 184/3 کا دائرہ کار استعمال ہو۔
ذرائع کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزاروں نے ذاتی رنجش پر آرٹیکل 184/3 کے غیر معمولی دائرہ کار کے تحت درخواستیں دائر کیں جبکہ سپریم کورٹ کا ذوالفقار مہدی بنام پی آئی اے کیس ذاتی رنجش پر184/3 کی درخواست دائرکرنےکی اجازت نہیں دیتا۔
ذرائع کے مطابق اعتراض میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست کے اجزا پورے نہیں کئے گئے، ججز نے آئینی درخواست دائر کرنے کی ٹھوس وجہ بیان کی نہ نوٹسز کے لیے فریقین کی وضاحت کی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں۔
درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
مزید کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔
درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔
درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: درخواستوں میں سپریم کورٹ کی درخواست ہائی کورٹ کے مطابق کورٹ کے کہا گیا یہ بھی
پڑھیں:
عمران خان کے کیسز سماعت کیلئے مقرر نہ ہونے پر پی ٹی آئی کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں احتجاج
اسلام آباد:بانی پی ٹی آئی کے کیسز سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے پر تحریک انصاف رہنماؤں اور کارکنوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر احتجاج کیا، وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ تین ججز نے فیصلہ دیا پھر بھی عمران خان سے ملاقات نہیں ہونے دی جارہی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق مظاہرین میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی بھی پہنچ گئے اور بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے نعرے لگائے۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے، انہوں ںے عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے انہوں نے عدالت میں بائیو میٹرک کرالیا۔
بعدازاں وزیراعلیٰ چیف جسٹس ہائیکورٹ کے سیکریٹری کے آفس پہنچے۔ اس دوران
پولیس اہلکار سب انسپکٹر ناصر نے سینیٹر فلک ناز کو سیکریٹری آفس جانے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اندر نہیں جاسکتیں۔
سینیٹر فلک ناز کا کہنا تھا کہ آپ کیسے روک سکتے ہیں مجھے میں سینیٹر ہوں، انسپکٹر نے کہا کہ میں ڈیوٹی افسر ہوں، فلک ناز نے کہا کہ میں آپ کو کمیٹی میں بلواؤں گی۔
سوال یہ ہے کہ انصاف کیوں نہیں ہو رہا؟ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی
میڈیا سے گفت گو میں وزیراعلیٰ کے پی سہیل آفریدی نے کہا کہ تمام پارلیمیٹینرز بیٹھے ہیں کیسز نہیں لگائے جارہے ہم چاہ رہے ہیں کہ وجوہات سامنے آجائیں، سوال یہ ہے کہ انصاف کیوں نہیں ہو رہا؟ ہم احتجاج کریں گے، تین ججز نے فیصلہ دیا ملاقات ہونی چاہیے مگر عمران خان سے ملاقات نہیں ہونے دی جارہی۔
ان کا کہنا تھا کہ 27ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ کسی نے نہیں دیکھا، معلوم نہیں حکومت نے بھی خود 27 ویں ترمیم کا مسودہ دیکھا ہے یا نہیں۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے آج کے چیف جسٹس سے ملے ہیں اور کیسز فکس کروانے کے حوالے سے بات کی، ہمارے کیسز فکس نہیں ہو رہے، آئین مجھے پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے، عدالتی فیصلے کے باوجود میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کروائی گئی، عدالتیں بتا سکتی ہیں کہ ان پر کس کا پریشر ہے؟
وزیراعلی کے پی نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ خیبرپختونخوا میں وہ کام کریں جو آج سے پہلے نہ ہوئے ہوں۔
دریں اثنا تحریک انصاف کی قیادت کی سیکرٹری ٹو چیف جسٹس سے ملاقات کے باوجود تحریک انصاف کو بانی پی ٹی آئی کے کیسز کی تاریخ نہ مل سکی۔