برطانیہ میں فلسطینی مشن کو سفارتخانے کا درجہ، عمارت پر فلسطینی پرچم لہرا دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
برطانیہ میں ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے فلسطینی مشن کو باضابطہ طور پر سفارتخانے کا درجہ دے دیا گیا، اور اس اہم موقع پر عمارت کے باہر فخر سے فلسطینی پرچم بھی لہرا دیا گیا۔
تقریب کے دوران برطانیہ میں فلسطین کے سفیر، حسام زملوط نے جذباتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئیے ہم سب مل کر فلسطین کا پرچم بلند کریں — وہ پرچم جس کے رنگ ہماری قوم کی روح کی عکاسی کرتے ہیں۔ سیاہ ہمارا دکھ اور سوگ، سفید ہماری امید، سبز ہماری سرزمین کی پہچان اور سرخ ہمارے عوام کی قربانیوں کا نشان ہے۔”
سفیر زملوط نے برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیے جانے کو انصاف کی بحالی کی جانب ایک سنگِ میل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم نہ صرف تاریخی ناانصافیوں کا ازالہ ہے، بلکہ آزادی، وقار اور بنیادی انسانی حقوق پر مبنی ایک روشن مستقبل کے لیے عالمی برادری کے عزم کا بھی اظہار ہے۔
انہوں نے گہرے دکھ کے ساتھ کہا کہ یہ تسلیم کرنا ایسے وقت میں آیا ہے جب فلسطینی عوام ناقابلِ بیان درد اور اذیت سے گزر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی نسل کُشی کا سامنا کر رہے ہیں جسے نہ صرف عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا، بلکہ اسے بے خوفی کے ساتھ جاری رہنے دیا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہاں کے باسی بھوک، بمباری اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں، اور اپنے ہی گھروں کے ملبے تلے دفن ہو رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں بھی حالات مختلف نہیں — وہاں روزانہ کی بنیاد پر ریاستی جبر، زمینوں کی چوری اور نسلی تطہیر جاری ہے۔
سفیر نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی انسانیت کو اب بھی مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہماری زندگیاں بے وقعت سمجھی جا رہی ہیں، اور ہمارے بنیادی حقوق بار بار پامال کیے جا رہے ہیں۔
تقریب کے اختتام پر حسام زملوط نے پُرعزم لہجے میں کہا ہم آج یہ پرچم ایک وعدے کے ساتھ بلند کرتے ہیں — کہ فلسطین باقی رہے گا، فلسطین سر بلند ہوگا، اور فلسطین ایک دن ضرور آزاد ہوگا۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطین کو باقاعدہ طور پر ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جسے عالمی سطح پر ایک اہم سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
برطانیہ: اب عوامی نمائندوں، سرکاری عہیدیداروں کے گھروں پر احتجاج عوام کو مہنگا پڑے گا
برطانیہ نے ایک نئے قانون کے تحت منتخب نمائندوں، ججوں اور مقامی کونسلروں کے گھروں کے باہر احتجاج کو جرم قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام سیاست میں بڑھتی ہوئی ہراسانی اور دھمکیوں کو روکنے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا نیا پاسپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ، یہ کن منفرد خصوصیات کا حامل ہوگا؟
رائٹرز کے مطابق برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ ’کرائم اینڈ پولیسنگ بل‘ کے تحت پولیس کو ایسے مظاہروں کو روکنے کا اختیار حاصل ہوگا جو کسی عوامی عہدیدار کو اس کے سرکاری فرائض یا ذاتی زندگی میں متاثر کرنے کے ارادے سے کیے جائیں۔ قانون کی خلاف ورزی پر 6 ماہ تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔
سیکیورٹی وزیر ڈین جاروس نے ایک بیان میں کہا کہ برطانوی سیاست میں حصہ لینے والوں کو جس سطح کی بدسلوکی کا سامنا ہے، وہ واقعی چونکا دینے والی ہے یہ ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ لوگوں کو سیاست میں حصہ لیتے وقت اپنے یا اپنے خاندان کے تحفظ کے بارے میں خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
ایک پارلیمانی سروے کے مطابق 96 فیصد ارکان پارلیمان نے ہراسانی یا دھمکیوں کا سامنا کیا ہے جبکہ برطانیہ کے انتخابی نگران ادارے کے مطابق پچھلے عام انتخابات میں نصف سے زائد امیدواروں کو بھی اسی نوعیت کے خطرات کا سامنا رہا۔
مزید پڑھیے: سارہ مولالی برطانیہ کی پہلی خاتون آرچ بشپ آف کینٹربری مقرر
گزشتہ برس موجودہ وزیراعظم کیر اسٹارمر کے گھر کے باہر فلسطین نواز مظاہرین نے بچوں کے جوتے اور ایک بینر چھوڑا تھا جس میں اسرائیل پر اسلحہ کی پابندی کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سنہ 2023 میں سابق وزیراعظم رِشی سونک کے لندن اور شمالی یارکشائر کے گھروں کے باہر بھی ماحولیاتی کارکنوں نے احتجاج کیا تھا۔
حکومت کے مطابق نئے قانون کے تحت احتجاج سے متعلق مزید اقدامات بھی شامل ہوں گے جن میں جنگی یادگاروں پر چڑھنے، آتش بازی یا فلیئرز کے استعمال اور چہرہ چھپانے کے لیے ماسک پہننے پر پابندی شامل ہے۔
حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد جمہوری اداروں کے تحفظ اور عوامی سلامتی کو یقینی بنانا ہے جبکہ ناقدین کا مؤقف ہے کہ اس قانون سے اظہارِ رائے اور احتجاج کے حق پر مزید قدغنیں لگ سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کا برطانیہ کے لیے فضائی آپریشن 5 سال بعد بحال، مانچسٹر کے لیے پہلی پرواز روانہ
یہ کرائم اینڈ پولیسنگ بل اس وقت برطانوی پارلیمان سے منظوری کے مراحل میں ہے اور توقع ہے کہ آئندہ سال اسے شاہی توثیق حاصل ہو جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ برطانیہ احتجاج پر سزا برطانیہ نیا قانون