تعصب کی عینک اتار کر دیکھو
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
منشیات کی خوفناک لعنت نے لمحہ موجود میں پوری دنیا خصوصاً پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ خصوصاً نسلِ نو اپنے درخشندہ و تاباں مستقبل سے بے پروا اس لعنت کے زہر کو اپنی رگوں میں اتارنے کے بعد ناسور بن کر اپنے ماں باپ اور اہل خاندان کی زندگیوں کے ساتھ پورے معاشرے کو جہنم بنا رہے ہیں۔ نشے کی لعنت شہروں، دیہاتوں، گلی محلوں سے نکل کر ہمارے تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے اور بڑی تعداد میں مستقبل کے معمار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے حصار میں جکڑ چکی ہے۔
دوستوں میں کوئی ایک نشئی ہو تو باقی دوستوں کے بھی عادی ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ ابتداء میں پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے منشیات فروشی اور استعمال کی خبریں آتی تھیں لیکن اب یہ تمیز ختم ہوچکی ہے۔ تعلیمی اداروں کا تعلق پبلک سیکٹر سے ہو یا پرائیویٹ سیکٹر سے، کوئی ادارہ اس لعنت سے محفوظ نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وفاقی وزیر داخلہ و انسداد منشیات محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے جو ہولناک انکشاف کیا ہے۔
اس نے ہر ذی شعور پاکستانی کو مضطرب اور اہل وطن کے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ وفا قی وزیرداخلہ و انسدادِ منشیات محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ "پاکستانی تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے متعلق حکومت لاعلم ہے، اس حوالے سے آخری سروے 12سال پہلے ہوا تھا۔" محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ " تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے متعلق حکومت کے پاس مستند ڈیٹا موجود نہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کی فراہمی اور استعمال کے متعلق تازہ معلومات محدود ہیں اور ملک میں منشیات کے استعمال سے متعلق کوئی جامع اور مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
ملک میں منشیات سے متعلق آخری قومی سروے 2013میں کیا گیا تھا، تاہم اس سروے میں تعلیمی اداروں کو شامل ہی نہیں کیا گیا تھا"۔ اس انکشاف کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر ایک نیا قومی سروے شروع کیا گیا ہے جو ملک میں منشیات کے استعمال کا مکمل جائزہ لے گا جو 2026 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ سروے میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اندر منشیات کے رجحان کا جائزہ بھی شامل ہے اور یہ سروے تعلیمی اداروں میں منشیات سے متعلق جامع اور مستند معلومات فراہم کرے گا، جس سے منشیات کی معلومات کو درست انداز میں ترتیب دے کر اس کا سدباب کرنے میں مدد ملے گی۔
قومی اسمبلی میں محسن نقوی نے ایک اور خوفناک انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ "انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے پاکستان بھر کی 263 یونیورسٹیوں میں 269 آپریشنز کیے، جن کے دوران ایک ہزار چارسوستائیس(1427) کلوگرام منشیات ضبط اور 426 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ حکومت تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے، تاہم مؤثر پالیسی سازی کے لیے مستند ڈیٹا ناگزیر ہے۔"
وزیر داخلہ کے یہ انکشافات ان والدین کے لیے جن کے بچے عصری تعلیم کے اداروں (اسکول کالج اور یونیورسٹی) میں زیرتعلیم ہیں آسمانی بجلی اور کسی ایٹم بم گرنے سے کم نہیں کیونکہ جن اداروں میں منشیات کا دھندا اس لیول پر ہو وہاں تو زیر تعلیم ہر طالبعلم کے سر پر منشیات کی لعنت کی تلوار لٹک رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اب ہمارے تعلیمی ادارے اسکالرز اور پروفیسرز کے سحر اور اثر کے بجائے منشیات فروشوں کے نرغے میں ہیں، جو والدین سمجھ رہے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم کی ان درسگاہوں سے گریجویٹ، ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالر بن کر نکلیں گے اب مضطرب ہیں کہ کہیں ان کے جگر گوشوں سے متعلق ان کے خواب چکنا چور نہ ہوجائیں۔ خدا نخواستہ منشیات کی لت لگ گئی تو نہ صرف ان کے لخت جگر بلکہ پورا خاندان تباہ وبرباد اور پورے معاشرے کے لیے ناسور بن جائے گا اور یہ لعنت ان کی زندگیوں کو تاریک و اندھیر اور ان کی جوانیوں کو کھوکھلا کر دے گا۔
تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور منشیات کے استعمال کے واقعات کئی سال سے وقفے وقفے سے منظر عام پر آرہے ہیں۔ مبینہ طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بعض ملازمین (عورتیں اور مرد) طالب علموں میں منشیات سپلائی کرتے ہیں یا ان اداروں سے ملحقہ بعض علاقوں میں منشیات کے عادی طلباء اور طالبات کو آسانی سے نشہ آور اشیاء دستیاب ہیں۔ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر طالب علموں میں سگریٹ نوشی تو عرصہ دراز سے ہوتی تھی مگر اب چرس، ہیروئین اور آئس جیسے نشہ اور اشیاء کے استعمال میں ہوشربا اضافہ تشویشناک اورقومی المیہ ہے۔
ہاسٹلوں میں منشیات کی سپلائی ایک منافع بخش اور مقبول کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ صرف ملازمین ہی اس مکروہ دھندے میں ملوث نہیں، بعض تعلیمی اداروں میں طلباء اور طالبات کے گروہ بھی اپنے عیش و عشرت کے لیے منشیات فروشی کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور طالب علموں میں منشیات کا کھلم کھلا استعمال نہایت افسوس ناک حقیقت ہے۔
ہیروئن، چرس، شیشہ، کوکین، شراب اور کرسٹل پاؤڈر (آئس) سمیت ہر قسم کا نشہ عام ہے۔ جب تعلیمی اداروں میں حصول علم کے لیے جانے والے طلباء اور طالبات نشے میں دھت دندناتے پھریں گے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی طلباء و طالبات کا سلسلہ درس و تدریس کس قسم کے ماحول میں فروغ پا رہا ہے۔ قانونی اور آئینی طور پر تو انسداد منشیات کے ذمے داران کا فرض ہے کہ وہ ہر خاص و عام کو اس لعنت سے دور رکھیں اور منشیات فروشوں کو نشان عبرت بنائیں مگر تعلیمی اداروں میں تو منشیات فروش ہمارے مستقبل اور معماران ملک و ملت پر حملہ آور ہیں اس کے لیے تو ہنگامی بنیادوں پر خصوصی اور بے رحم فورس کا قیام عمل میں لانا چاہیے جو سختی سے کام لیتے ہوئے طلباء و طالبات کو منشیات کے استعمال سے روکیں، منشیات کے عادی افراد کا علاج کروائیں اور منشیات فروشوں کو تعلیمی اداروں کے اندر برسر عام عبرتناک سزائیں دیں۔
تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ خصوصی مہم چلا کر منشیات سے پاک ماحول کو یقینی بنائیں۔ بعض تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کے نمایندوں اور اساتذہ کی بھی پروا نہیں کی جاتی جب کہ ہاسٹلوں میں باقاعدگی سے منشیات کے استعمال کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ نشے کے عادی افراد شرم و حیا سے عاری ہوجاتے ہیں تو پھر ہاسٹل وارڈن اور اساتذہ سے حجاب بھی ختم ہوجاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ انفرادی سطح کے علاوہ سرکاری اداروں کے تعاون سے مشترکہ طور پر یہ مسئلہ حل اور سائنٹیفک بنیادوں پر منصوبہ بندی کر کے نوجوان طالب علموں کو منشیات کی لعنت سے بچاؤ کا قومی فریضہ انجام دیں۔
حکومت اگر تعلیمی اداروں سے منشیات کا خاتمہ کرنے میں سنجیدہ ہے تو ہمارے معاشرے میں منشیات سمیت ہر جرم سے پاک دینی مدارس کا ماڈل موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جائے۔ کراچی سے خیبر تک ہزاروں دینی مدارس موجود ہیں جن میں لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں، ان مدارس پر کالج اور یونیورسٹیوں کی طرح حکومت کے اربوں، کھربوں روپے بھی خرچ نہیں ہوتے،گزشتہ 78 برسوں سے یہ مدارس اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں، یہاں سے فارغ التحصیل علماء پوری دنیا میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور افعانستان میں مثالی حکومت چلا رہے ہیں، اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور قرآن و حدیث کی برکت سے آج تک کسی ایک مدرسے سے منشیات فروشی یا منشیات کے استعمال کی خبر نہیں آئی۔
اگرحکومت عصری تعلیم کے اداروں سے اس لعنت کوختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو ایک بار مدارس کے نظام کا جائزہ تعصب کی عینک اتار کر لیں اور مدارس کی طرح کردار سازی پر توجہ دینے والا پاکیزہ و معطر نظام تعلیم اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لے آئیں، منشیات ہی نہیں ایسی تمام لعنتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ مل جائے گا، لیکن اس کے لیے شرط یہی ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر درد دل سے صورتحال کا جائزہ لے کر اقدامات کرنے ہونگے ورنہ عصری علوم کے ادارے منشیات فروشی کے اڈے بن جائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تعلیمی اداروں میں منشیات میں منشیات کے استعمال منشیات کے استعمال سے اور یونیورسٹیوں قومی اسمبلی میں منشیات فروشی محسن نقوی نے طالب علموں منشیات کی سے منشیات اور طالب رہے ہیں کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
حیدرآباد، واپڈا کا نجکاری کیخلاف ملک گیر احتجاج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)حکومت محکمہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں اور مفادعامہ کے اداروں کی نجکاری سے باز رہے یہ قومی ادارے ملک و ملت کے اثاثے ہیں کسی جماعت یا اداروں کی جاگیر نہیں جن کی من پسند افراد میں بندر بانٹ کردی جائے واپڈا ملازمین مسلسل نجکاری اور ٹھکیداری نظام کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور یہ احتجاج کا سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک حکومت نجکاری کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان نہ کردے کیونکہ حکومتی عمل کے باعث محکمہ بجلی کے ملازمین عدم تحفظ کا شکار ہیں اگر ان قومی اداروں کی نجکاری عمل میں لائی گئی تو نہ صرف عوام کو مہنگیبجلی کا سامنا کرنا پڑے گا ، بلکہ حکومتی کنٹرول ختم ہونے کے باعث سرمایہ دار صرف اور صرف اپنے منافع پر توجہ دے گا اسے عوام کی پریشانی اور احتجاج سے کوئی سروکار نہ ہوگا، جس کی زندہ مثال “کے الیکٹرک” کراچی سے لی جاسکتی ہے جہاں بجلی کی فراہمی پوش علاقوں میں تواتر سے ہوتی ہے جبکہ عام اور غریب اور متوسط علاقوں میں بجلی کی عدم فراہمی کے خلاف آئے دن احتجاج ہوتا رہتا ہے لہٰذا عوام کو بھی اس پہلو پر سوچنا ہوگا۔ان خیالات کا اظہار آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین ( CBA) کے مرکزی صدر عبداللطیف نظامانی نے واپڈا ملازمین کے ملک گیر احتجاج کے سلسلے میں لیبرہال حیدرآباد سے ان کی قیادت میں نکالی گئی ہزاروں واپڈا ملازمین کی عظیم الشان ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شرکا ریلی نے ہاتھوں میں سرخ جھنڈے اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر مطالبات درج تھے، ریلی مقررہ راستوں سے ہوتی ہوئی پریس کلب پہنچ کر جلسے میں تبدیل ہوگئی شرکاء ریلی کے دیگر قائدین میں صوبائی جنرل سیکریٹری اقبال احمد خان ، محمد حنیف خان، گل محمد نظامانی، الہ دین قائمخانی، نوراحمد نظامانی، عابد شاہ، عبدالجبار عباسی،شعبہ خواتین کی چیئرپرسن ثروت جہاںشامل تھیں۔ ریلی سے خطاب میں صدر یونین نے مزید کہا کہ آج ملازمین ملک کے طول وارض میں واپڈا کی تقسیم کارکمپنیوں کی نجکاری اور مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں اور ملک بھر کی طرح سندھ بھر کے ملازمین بھی بہت بڑی تعداد میں احتجاجی جلسے ، جلوس کا اہتمام کررہے ہیں میں ملک بھر کے تمام محنت کشوں کو منظم انداز میں یونین کی اپیل پر عظیم الشان اجتماعات کرنے پر مبارکباد پیش کرتاہوں اور ہم اپنے اسی اتحاد کی طاقت وبرکت سے حکومتی عزائم کو ناکام بناکر دم لینگے، انہوں نے مزید کہا کہ نجکاری کا مقصد ملازمین اور ادارے کو تباہ کرناہے ہمارے ملک میں پہلے ہی مہنگائی ، لاقانونیت اور بے روزگاری جیسے مسائل در پیش ہیں،نجکاری سے یہ مسائل مزید اور خراب ہوجائینگے بے روزگاری عوام میں جرائم کا باعث بن جائیگی جوکسی طور بھی ملک وملت کے مفاد میں نہیں ہوگالہٰذا ہمارا حکومت سے بھرپور انداز میں مطالبہ ہے کہ اداروں کی نجکاری کے بجائے انکی اصلاح کرکے انہیں بہتر سے بہتر بنایا جائے۔