ہم اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت چاہتے ہیں، محمود عباس
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
الجزیرہ کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے کہا کہ میں اسرائیل سے درخواست کرتا ہوں کہ فوری طور پر خونریزی بند کرے اور جامع امن کے لیے مذاکرات کی میز پر آئے۔ ہم غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کے اپنے عزم کی تصدیق کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے پیر کی شب دو ریاستی حل کانفرنس کے لیے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ہم غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد انتخابات کرانے کے اپنے عزم کی تصدیق کرتے ہیں۔ فارس نیوز کے مطابق، محمود عباس نے کہا کہ ہم مستقل جنگ بندی اور غزہ میں امداد کی رسائی کے حامی ہیں۔ انہوں نے ویڈیو پیغام میں وضاحت کی کہ فلسطین ہی واحد ادارہ ہے جو غزہ میں مکمل حکومت اور سیکورٹی کی ذمہ داری وقتی انتظامی کمیٹی کے ذریعے سنبھال سکتا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق، عباس نے کہا کہ حماس حکومت میں کوئی کردار نہیں رکھے گی اور اس گروپ سمیت دیگر فریقین کو اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے ہوں گے کیونکہ ہم ایک غیر مسلح، قانون پر مبنی اور جائز سیکورٹی فورس والے ملک کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے مصر اور اردن کے موقف کی تعریف کی اور کہا کہ ہم ایک جمہوری اور جدید فلسطینی ریاست چاہتے ہیں جو قانون کی حکمرانی پر مبنی ہو۔ عباس نے مزید کہا کہ ہم ان ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے فلسطین کو تسلیم کیا اور دیگر ممالک سے بھی یہی اقدام کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ انہوں نے صہیونی حکام کے بڑا اسرائیل کے دعوے کی مذمت کی اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت دی جائے اور ہم امریکہ، فرانس اور سعودی عرب کے ساتھ دو ریاستی حل کانفرنس کے منظور شدہ امن منصوبے پر تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے کہا کہ میں اسرائیل سے درخواست کرتا ہوں کہ فوری طور پر خونریزی بند کرے اور جامع امن کے لیے مذاکرات کی میز پر آئے۔ ہم غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کے اپنے عزم کی تصدیق کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی کے کہا کہ ہم نے کہا کہ کے مطابق کرتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی شمولیت:تاریخی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کی بین الاقوامی حیثیت کے حوالے سے ایک بڑی اور تاریخی پیش رفت سامنے آئی ہے۔
جنرل اسمبلی نے اپنی 80ویں نشست کے دوران ایک قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی ۔ قرارداد کے حق میں 145 ممالک نے ووٹ دیے، مخالفت میں صرف 5 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 6 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ یہ نتیجہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری کی اکثریت فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور ان کی سیاسی جدوجہد کو تسلیم کر رہی ہے۔
اس قرارداد کے ذریعے فلسطین کو اقوام متحدہ کی سرگرمیوں میں بامعنی شرکت کے لیے نیا طریقہ کار فراہم کیا گیا ہے۔ اس میں فلسطینی صدر یا دیگر اعلیٰ نمائندوں کو جنرل اسمبلی کے اجلاسوں، اعلیٰ سطح کی کانفرنسوں اور دیگر عالمی مباحثوں میں براہِ راست یا ریکارڈ شدہ بیانات پیش کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ساتھ ہی یہ شق بھی شامل کی گئی ہے کہ فلسطینی حکام کو جہاں ممکن ہو، ذاتی طور پر اجلاسوں میں شرکت یقینی بنائی جائے تاکہ ان کی آواز دنیا تک پہنچ سکے۔
یہ اقدام فلسطین کے لیے سفارتی سطح پر ایک غیر معمولی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ امریکا اور چند قریبی اتحادیوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی، لیکن بھاری اکثریت کی حمایت نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ دنیا اسرائیلی قبضے اور جارحیت کو مزید نظرانداز کرنے پر تیار نہیں۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی عوام برسوں سے قابض اسرائیلی فوج کی جارحیت اور امریکی پشت پناہی کے ظلم کا سامنا کر رہے ہیں۔
فلسطین کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جگہ دینا نہ صرف ان کے حق کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے بلکہ اسرائیل پر بھی سفارتی دباؤ بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے حوصلے بلند کرے گی اور ان کی جدوجہد آزادی کو مزید تقویت ملے گی۔