اسرائیلی طیاروں اور توپ خانے کی فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر بمباری25شہید
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
غزہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 ستمبر ۔2025 )اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے مغرب میں نصر سٹریٹ پر واقع ”اروا“ سکولوں کے اطراف میں بمباری کی ہے جہاں بڑی تعداد میںفلسطینی پناہ گزین موجود ہیں جبکہ اسرائیلی توپ خانے نے شہر کے مغرب میں واقع شطی پناہ گزین کیمپ کے مضافات میں وقت گولہ باری کی .
(جاری ہے)
غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے شائع ہونے والی شماریاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 24 گھنٹوں کے اندر مجموعی طورپر61 افراد ہلاک ہوئے ہیں جس کے بعد غزہ میں جنگ سے ہونے والی اموات کی کل تعداد 65,344 تک پہنچ گئی ہے وزارت صحت کا کہنا ہے اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اضافے اور مسلسل گولہ باری سے ہونے والے نقصانات اور اسرائیلی ٹینکوں کی پیش قدمی کے نتیجے میں غزہ شہر کے دو ہسپتالوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی ٹینک شہر کے مزید اندر تک داخل ہو گئے ہیں غزہ کے حکام کے مطابق، الرنتیسی چلڈرن ہسپتال کو کئی روز قبل اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں شدید نقصان پہنچا تھا اسی دوران قریبی واقع آنکھوں کے ہسپتال کے نزدیک اسرائیلی حملوں کی اطلاع ہے جس کے بعد اسے بھی بند کر دیا گیا ہے وزارت صحت نے اسرائیلی افواج پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے غزہ کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو نشانہ بنا رہے ہیں. اسرائیل کی جانب سے اس پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے دوسری جانب عرب نشریاتی ادارے ”العربیہ“نے بتایا ہے کہ جنگ بندی کی ایک نئی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں 10 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور دو امریکی یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کرنے اور امریکی ضمانت کی فراہمی کے بدلے میں غزہ میں دو ماہ کے لیے جنگ بندی اور انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے نشریاتی ادارے نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس تجویز پر ابھی تک حماس یا اسرائیل کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے کسی تصفیے تک پہنچنے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں اور ان کوششوں سے مذاکرات میں تعطل کا خاتمہ ہو گا. امریکی نشریاتی ادارے ”فاکس نیوز“ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل سینئر امریکی عہدیدار اور غزہ کی پٹی پر ہونے والے مذاکرات سے واقف ایک ذریعے نے تصدیق کی تھی کہ حماس نے امریکی صدر ٹرمپ کو ایک ذاتی خط لکھا تھا جس میں غزہ میں 60 دنوں کے لیے جنگ بندی کی ضمانت کی درخواست کی گئی تھی جس میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں میں سے نصف کی رہائی کی ضمانت دی گئی تھی خط کے مسودے کا جائزہ لینے والے ذریعے نے یہ بھی بتایا ہے کہ حماس نے ضمانت کی درخواست کی ہے کہ جنگ بندی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک جنگ کے خاتمے اور باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت جاری رہے گی. رپورٹ میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ خط فی الحال قطری ثالثوں کے پاس ہے اور توقع ہے کہ اس ہفتے ٹرمپ کو پہنچا دیا جائے گا یہ سب ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ بارہا حماس کو خبردار کر چکے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ حماس ان کی تجاویز کا جواب دے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اس ماہ کے شروع میں امریکی صدر نے حماس کو ایک واضح انتباہ جاری کیا اورزور دیا کہ مزید انتباہات نہیں ہوں گے”ٹروتھ سوشل “پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے اس وقت کہا کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ یرغمالیوں کی گھر واپسی ہو اور اس جنگ کا خاتمہ ہو‘ اسرائیلیوں نے میری شرائط مان لی ہیں اب وقت آگیا ہے کہ حماس بھی ان کو قبول کرے. ٹرمپ کی جانب سے حماس کے لیے حتمی الٹی میٹم جاری کرنے کے بعد ٹرمپ نے اپنے یقین کا اظہار کیا کہ معاہدہ زیادہ دور نہیں ہوگا اس سے قبل امریکی ایلچی سٹیو وِٹکوف نے ثالثوں کے ذریعے حماس کو پیش کی گئی امریکی تجویز میں جنگ بندی کے بدلے باقی تمام 48 اسرائیلی یرغمالیوں (زندہ اور مردہ دونوں) کی رہائی اور غزہ شہر پر اسرائیلی قبضے کا خاتمہ شامل تھا اس تجویز میں یہ بھی شرط رکھی گئی تھی کہ اسرائیل اپنی جیلوں میں قید 2500 سے 3000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کردے گا. اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ تجویز کے مطابق جنگ بندی کا اعلان ہونے کے بعد جنگ کے خاتمے کی شرائط پر فوری طور پر مذاکرات شروع ہو جائیں گے جس میں اسرائیل کی جانب سے حماس کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ اور فلسطینی تحریک مزاحمت کا پوری غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کے مکمل اور مستقل انخلاءکا مطالبہ شامل ہے خیال رہے اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ میں اب بھی 47 قیدی موجود ہیں جن میں سے 25 ہلاک ہو گئے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یرغمالیوں کی بتایا ہے کہ کہ اسرائیل کی جانب سے کا کہنا ہے کی رہائی ہے کہ اس کہ حماس حماس کو کی گئی کے بعد کے لیے گیا ہے شہر کے
پڑھیں:
حماس نے صدر ٹرمپ کے نام خط میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پیش کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جہاں حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک خط کے ذریعے 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق، حماس نے اس جنگ بندی کے بدلے میں اسرائیلی یرغمالیوں کے تقریباً نصف حصے کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے۔
یہ خط فی الحال قطر کے پاس موجود ہے، جو اس تنازع میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس خط کو رواں ہفتے کے آخر میں صدر ٹرمپ کو پیش کیا جائے گا۔ اگرچہ حماس نے ابھی تک اس خط پر باضابطہ دستخط نہیں کیے ہیں، لیکن آئندہ دنوں میں ایسا کیا جانے کا امکان ہے۔
اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی اپنے آزاد ذرائع سے اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے۔ یہ پیشکش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ایک اہم اجلاس جاری ہے، جس میں کم از کم چھ مغربی ممالک کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کی توقع ہے۔
یرغمالیوں کے تبادلے کے حوالے سے موجودہ صورتحال کے مطابق حماس کے پاس اس وقت 48 اسرائیلی یرغمالی ہیں، جن میں سے تقریباً نصف کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ رپورٹس کے مطابق، تقریباً 20 یرغمالی زندہ ہیں، جبکہ باقی کی لاشیں واپس لانے کے لیے بھی مذاکرات جاری ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ قطر نے حال ہی میں ثالثی کی کوششیں معطل کر دی تھیں، بعد ازاں اسرائیل کی جانب سے دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس نئی پیشکش سے خطے میں امن کے امکانات نے ایک بار پھر جنم لیا ہے، تاہم امریکا اور اسرائیل نے اقوام متحدہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ پیشکش قبول کرلی جاتی ہے تو یہ غزہ میں انسانی المیے کو روکنے کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی کمی اور ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر اس معاہدے کے امکانات غیر یقینی ہیں۔