ورلڈ بینک رپورٹ: پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ، عوامی اصلاحات پر زور
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں پاکستان میں قومی غربت کی شرح میں دوبارہ اضافے کی نشاندہی کی گئی ہے اور عوامی مرکزیت پر مبنی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ ملک کی کمزور اور پسماندہ آبادی کی حفاظت کی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی بینک کی پنجاب میں پرائمری تعلیم کے لیے 4 کروڑ 79 لاکھ ڈالر گرانٹ کی منظوری
رپورٹ کا عنوان ’خوشحالی کی جانب دوبارہ رفتار حاصل کرنا: پاکستان کی غربت، مساوات اور لچک کا جائزہ‘ ہے اور یہ ملک میں 2000 کی دہائی کے آغاز کے بعد غربت اور فلاح و بہبود کے رجحانات کا پہلا جامع جائزہ ہے۔
غربت کی شرح میں اضافہ2001-02 میں 64.
سابقہ ترقی زیادہ تر صارفین کی کھپت پر منحصر تھی جو اب اپنی حدوں پر پہنچ چکی ہے۔
نوکریوں کی نوعیتغربت میں کمی زیادہ تر غیر زرعی محنت کی آمدنی میں اضافے کی وجہ سے ہوئی جس میں زیادہ تر لوگ زرعی کام سے سروس سیکٹر کی طرف منتقل ہوئے۔
مزید پڑھیے: عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 19 کروڑ 40 لاکھ ڈالر قرض منظور کرلیا
تاہم ساختی تبدیلی سست اور غیر مساوی رہی جس کی وجہ سے نوکریاں پیدا کرنے اور اقتصادی نمو میں رکاوٹ آئی۔
غیر رسمی ملازمتیں اور خواتین و نوجوانوں کی شمولیت85 فیصد سے زیادہ نوکریاں غیر رسمی ہیں اور خواتین و نوجوان بڑی حد تک لیبر فورس سے باہر ہیں۔
تعلیم اور صحت کی صورتحالتقریباً 40 فیصد بچے قد کے لحاظ سے کمزوری کا شکار ہیں، 25 فیصد بچے پرائمری اسکول نہیں جاتے اور پرائمری اسکول جانے والے 75 فیصد بچوں کی پڑھائی کی صلاحیت بہت محدود ہے۔
پبلک سروسز کا فقدانسنہ2018 میں صرف نصف گھرانوں کو صاف پانی کی دستیابی تھی اور 31 فیصد کے پاس محفوظ صفائی کی سہولت موجود نہیں تھی۔
علاقائی فرقدیہی غربت شہری علاقوں سے دوگنی سے زیادہ ہے اور کئی پسماندہ اضلاع کئی دہائیوں سے پیچھے ہیں۔
بے قابو شہری ترقی نے گنجان آباد مگر ناقص معیار کی رہائشیں بنا دی ہیں۔
عالمی بینک نے پاکستان میں گزشتہ 3 سالوں کے دوران غربت کی شرح میں 7 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہوئے اصلاحات پر زور دیا ہے۔
عالمی بینک کی سفارشاتعالمی بینک کی جانب سے کی گئی سفارشات کے مطابق کمزور خاندانوں کی حفاظت، روزگار کے مواقع میں اضافہ اور بنیادی سہولیات تک رسائی کو بہتر بنانا ہوگا۔
سرمایہ کاریتعلیم، صحت اور دیگر عوامی خدمات میں سرمایہ کاری، مقامی حکمرانی کو مضبوط کرنا اور سماجی تحفظ کے نظام کو مؤثر بنانا ہوگا۔
ماحولیاتی نظاممالیاتی نظام کو بہتر بنانا اور وقت پر ڈیٹا اکٹھا کر کے فیصلہ سازی کو مؤثر بنانا۔
مزید پڑھیں: سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کی حمایت پر وزیرِاعظم کا اظہارِ تشکر
سینیئر ماہر معاشیات کرسٹینا ویسر کا کہنا ہے کہ ایسی اصلاحات جو معیاری خدمات تک رسائی بڑھائیں، خاندانوں کو صدموں سے بچائیں اور خاص طور پر غریب 40 فیصد آبادی کے لیے بہتر روزگار پیدا کریں، غربت کے چکروں کو توڑنے اور پائیدار، شمولیتی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ، پاور سیکٹر اقتصادی ترقی میں رکاوٹ قرار، عالمی بینک کی رپورٹ
پاکستان میں ورلڈ بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آمگابازار کا کہنا ہے کہ پاکستان کی غربت میں کمی کے حاصل کردہ نتائج کو محفوظ بنانا اور اصلاحات کو تیز کرنا اہم ہے اور خصوصاً خواتین اور نوجوانوں کے لیے مواقع بڑھانا ضروری ہے۔
مستقبل کی حمایتجنوری میں ورلڈ بینک نے پاکستان کو 10 سالہ ملک شراکت کاری فریم ورک (سی پی ایف) کے تحت 20 ارب ڈالر کی معاونت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ پاکستان میں شمولیتی اور پائیدار ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان میں غربت میں اضافہ عالمی بینک عالمی بینک کی نئی رپورٹذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان میں غربت میں اضافہ عالمی بینک عالمی بینک کی نئی رپورٹ غربت کی شرح میں عالمی بینک کی پاکستان میں میں اضافہ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
سروے رپورٹ: موجودہ آمدن میں اخراجات پورے کرنے والوں کی شرح میں نمایاں اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں شہری آبادی کے مالی حالات سے متعلق پلس کنسلٹنٹ کے حالیہ سروے کے نتائج سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق موجودہ آمدن میں اخراجات پورے ہونے کا دعویٰ کرنے والے افراد کی شرح دوگنی ہو گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 51 فیصد شہریوں نے کہا ہے کہ ان کی آمدن میں روزمرہ اخراجات باآسانی پورے ہو جاتے ہیں، جبکہ گزشتہ سروے میں یہی شرح صرف 25 فیصد تھی۔ اس کے برعکس مشکل سے گزارا ہونے کا کہنے والے افراد کی تعداد کم ہوکر 49 فیصد رہ گئی ہے، جو پہلے 75 فیصد تھی۔
سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ بجٹ کے بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے مالی حالات کو نسبتاً بہتر محسوس کیا ہے۔ ہفتہ وار مہنگائی میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جس میں 1.34 فیصد کمی کے بعد مجموعی شرح 4.17 فیصد تک آگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق مہنگائی کی اس کمی اور آمدنی میں اخراجات پورے ہونے کے رجحان میں اضافہ شہریوں کے اطمینان کا باعث بنا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق مردوں اور خواتین دونوں میں اخراجات پورے ہونے کی شرح نمایاں طور پر بڑھی ہے۔ سال 2024 میں شہری مردوں کی 28 فیصد آبادی نے کہا تھا کہ آمدن میں گزارا ہو رہا ہے، جبکہ حالیہ سروے میں یہ شرح بڑھ کر 56 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ خواتین میں بھی مثبت رجحان سامنے آیا ہے، جہاں 44 فیصد خواتین نے اپنے بجٹ میں اخراجات پورا ہونے کی تصدیق کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ مہنگائی اور بے روزگاری اب بھی عوامی مسائل ہیں، مگر حالیہ اعداد و شمار شہری آبادی میں کسی حد تک مالی استحکام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مستقبل میں یہ رجحان برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے اور روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔