Jasarat News:
2025-09-23@23:41:01 GMT

یقیں نہ کرنا، بہت اندھیرا ہے

اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250924-03-7

 

باباالف

زمانہ اور اس کے روزو شب بدل رہے ہیں۔ بالکل بدل جانے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ پرانی دنیا اختتام پذیر ہورہی ہے۔ مغربی نظریات، تصورات، احساسات اور کوششیںسند باد کے بحری اسفار کی طرح پیچھے رہ گئی ہیں۔ جنات، حسین دوشیزائیں، دیو قامت مغربی جنگی پرندے اور نظام، ایک دروازہ تھا جو بتدریج بند ہورہا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں لاکھ آوارہ گردی رہی لیکن واپس اپنے ماضی کی طرف ہی آنا ہے۔ خلافت راشدہ کے اسلامی نظام کی طرف۔

پاک سعودی معاہدے کے پیدا کردہ جوش وخروش میں ابھی تک یہ علم نہیں کہ یہ باقاعدہ پیکٹ ہے یا پھر عام معاہدہ یا اگریمنٹ۔ بجا طور پرایک سرخوشی اور نشاط کا عالم ہے۔ سعودی بھائی اور ہم یک جان دو قالب تو ابتدا سے رہے ہیں اب شہر کے چھٹے ہوئے غنڈوں اور مسٹنڈوں کے خلاف بھی معاہدے کی ڈوری میں بندھ گئے ہیں۔

ہمارے وزیرخارجہ خواجہ آصف تو اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ اس معاہدے میں دوسرے ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اشارہ اس طرف تھا کہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی نیو کلیئر شیلڈ یا کور فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ایٹمی پھیلائو (Nuclear proliferation) کی حدود وقیود سے یہی وہ تجاوز ہے مغربی اور بھارتی میڈیا نے ابھی سے جس کا طبلہ سارنگی بجانا شروع کردیا ہے۔ ہمارے یہاں خراب وخوار ہونے کی ایک دورخی ریت چلی آرہی ہے کہ مخاطب اپنے مسلمان بھائی ہوں تو اسلامی جذباتیت کا ایٹم بم ہمراہ ہوتا ہے اور اگر خطاب رائٹرز (Reuters) سے ہوتو مسلم وابستگی کا ہیجان زنگ آلود اور نیم جان ہوکر انکار میں بدل جاتا ہے۔

اس معاملے میں ابہام ہے کہ اگر ہم سعودیہ کو نیو کلیئر چھتری مہیا نہیں کررہے ہیں تو پھر وہ کیا ہے جس کی سعودیہ کو کمی ہے۔ معاملہ بس اتنا تو نہیں ہے کہ عربوں کو ہماری ضرورت ہے اور ہمیں ’’اربوں‘‘ کی۔ یا پھر یہ کہ امریکا اپنی دفاعی چھتری کی بہت زیادہ قیمت وصول کرنا چاہتا تھاجب کہ پاکستان سے یہ سستے داموں مل گئی ہے۔ معاہدے کے ضمن میں امریکا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے تعلقات میں پڑنے والی گرہیں بھی پیٹ پھاڑ کر کلیجہ چبانے تک آگئی ہیں کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد عرب ممالک کو امریکا پر بھروسا نہیں رہا۔ بیوگی کی چادر عرب بھائیوں سے امریکا تک تن گئی ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے جاپان امریکا طرز کے دفاعی معاہدے میں ’’نکی جئی نا‘‘ حائل ہوگئی ہے اور بس۔

امریکا ہمیں جو دے ہے نہیں لیتے ہم

کونین بھی گو دے ہے، نہیں لیتے ہم

ہم لیتے ہیں جس ڈھب سے نہیں دیتا وہ

جس ڈھب سے کہ وہ دے ہے نہیں لیتے ہم

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کا میلہ اور بازار پہلی مرتبہ نہیں لگا۔ یہ سلسلہ 1967 سے شروع ہوا۔ 1979 میں مسجد الحرام پر قبضے کے بعد محبت میں اضافہ مزید گہرا ہوا جب پاکستانی اسپیشل فورسز نے سعودی فوجیوں کو مسجد الحرام پر دوبارہ قبضہ کرنے میں مدد دی۔ 1982 میں سیکورٹی تعاون کے معاہدے کے ذریعے سعودی فوجیوں کو پاکستانی تربیت، مشاورت اور معاونت سعودی سرزمین پردی جانے لگی جس میں بعض اوقات 20 ہزار پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات رہے۔

دسمبر 2015 میں ’’اسلامی ملٹری کائونٹر ٹیررازم کو لیشن IMCTC‘‘ وجود میں آیا جو 43 اسلامی ممالک کے درمیان دہشت گردی کی بے چہرہ امریکی جنگ میں شرکت کا اتحاد تھا۔ 6 جنوری 2017 کو اس اتحاد کو بوسہ دینے کے لیے پاکستان نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس فورس کے پہلے کمانڈر جنرل کے عہدے کے لیے سعودی عرب کو بطور تحفہ دے دیا گیا۔ آج بھی وہی اس فورس کی کمان کررہے ہیں۔ یہ فورس آج کہاں ہے؟ سعودی فرمانروائوں کے کن محلات کی حفاظت کررہی ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ اگر یہ اسلامی دنیا کا اتحاد اور مسلم ناٹو تھا تو غزہ میں مداخلت کیوں نہیں کررہا ہے جہاں ناپاک صہیونی وجود بنام اسرائیل ہر مسلمان مردو عورت کو شہید اور ہر عمارت کو تباہ کررہا ہے۔ کیا صرف سعودیوں اور پاکستانیوں کے خون کی حرمت کعبہ کی حرمت سے سوا ہے؟ اہل غزہ کے خون، جان اور مال کی کوئی حرمت نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے اتحاد کی موجودگی میں نیا اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا اس لیے کہ وہ ایک سنی اتحاد تھا۔

پاکستان اور سعودی عرب کا ہی سنگم نہیں ہوا ہے آج کل ترکی اور مصر کا اتحاد بھی بغیر کسی اعلان کے جاری ہے جن کے درمیان 2016 کے بعد خاصے اختلافات رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان آج کل فوجی مشقیں ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ بھی قطر کے ساتھ ساتھ دیگر سات اسلامی ممالک پر اسرائیل کے حملے قراردیے جارہے ہیں۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ مصر کا فرعون جنرل سیسی بھی امریکی ڈارلنگ ہے جس کو سالانہ ایک سے دو ارب ڈالر امریکی امداد ملتی ہے، آئی ایم ایف کے قرضے بھی ملتے ہیں صرف اس ایک شرط پر امریکا کے سامنے سرتسلیم ہی نہیں پورے کا پورا سربسجدہ رہنا ہے۔ اسرائیل بھی امریکا کا بغل بچہ ہے اور ترکی کے صدر طیب اردوان بھی امریکا کی گڈ بک میں ہیں۔ تینوں کی امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ ہے۔ پاک سعودی اتحاد ہو یا ترک مصر اتحاد ان ممالک کی حکمران اشرافیہ اپنے اپنے فائدے کے لیے نئے اتحاد تشکیل دے رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ ہورہا امریکا کی رضا اور مرضی سے۔ امریکا چاہتا ہے کہ خطے کے بڑے ممالک آپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں۔ ان کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی ہوحالانکہ ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی نہیں ہے مگر امریکا کے سب قابل قدر شراکت دار ہیں تاکہ امریکا ایران، روس اور چین پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھے۔

تمام اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کے عوام میں بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے جو اپنے حکمرانوں سے شدید نا خوش ہیں خصوصاً امریکا اور اسرائیل کے حوالے سے۔ ان اتحادوں سے حکمران عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ امریکا سے دور ہورہے ہیں اور امریکا اور اسرائیل کے خلاف باہم متحد ہورہے ہیں۔ یہ اتحاد عوام کو ٹھنڈا اور خوش کرنے کے لیے ہیں۔ عوام کی فلاح وبہبود کا اس سے کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ عوام کو خوش کن ترانے سننے کو مل جاتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف ان مسلم حکمرانوں کی کوئی شخصیت ہے اور نہ یہ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر اسرائیل سے اتنی ہی نفرت ہے تو قطر پر حملے کے فوری بعد امارات اور تل ابیب کے درمیان فلائٹس پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی۔ سفارتی تعلقات کیوں منقطع نہیں کیے گئے۔ آج بھی ائر دبئی کی روزانہ تین مرتبہ فلائٹس اسرائیل جاتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے نزدیک عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایسے معاہدوں سے ان حکمرانوں کی مدت اقتدار طویل ہوجاتی ہے، پاکستان جیسے ملک کے حکمرانوں کو عیاشیوں اور اللے تللوں کے لیے وافر ڈالرز مل جاتے ہیں۔ رہے عوام اور ملک وہ وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام اسلام کا نظام چاہتے ہیں۔ آج بھی ان کے خوابوں، خیالوں اور نظریات میں خلافت راشدہ کے نظام کے سوا کچھ نہیں۔ آخر میں کالم کی ابتدائی سطریں دوباہ پڑھ لیجیے۔

بابا الف.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل کے امریکا کے کے درمیان ممالک کے نہیں ہے رہے ہیں کے لیے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

پاک بھارت جنگ سمیت7جنگیں رکوائیں، اقوام متحدہ میں اصلاحات کرنا چاہتا ہوں،ٹرمپ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نیویارک : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروائی، پاک بھارت جنگ سمیت 7 جنگیں رکوائیں، یہ ساتوں جنگیں ان ممالک کے قائدین سے بات کرکے رکوائیں، ان جنگوں کو رُکوانے میں اقوام متحدہ کا ساتھ شامل نہیں تھا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ امریکا دنیا میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا، ابراہیم معاہدے پر بات چیت چل رہی ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ مجھے یہاں بلانے کے لیے بہت شکریہ، میری حکومت کے 8 ماہ کے دوران اچھی تبدیلیاں آنی شروع ہو گئی ہیں، پچھلی انتظامیہ نے ہمارے ملک کو بے انتہا مسائل سے دو چار کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا میں مہنگائی میں کمی ہوئی ہے، سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، امریکا کی معیشت مضبوط اور سرحدیں محفوظ ہیں، اگر کوئی غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوا تو اس کو جیل جانا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے امریکا شدید مشکلات کا شکار تھا، ہم نے اقتدار میں آ کر مہنگائی کو کنٹرول کیا، امریکا اپنے سنہری دور سے گزر رہا ہے، ہمیں معاشی تباہی ورثے میں ملی، امریکا کو عالمی منظر نامے پر ایک بار پھر عزت و تکریم مل رہی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سوچتا ہوں اقوامِ متحدہ کو بنانے کا مقصد کیا تھا؟ اقوامِ متحدہ میں اصلاحات کرنا چاہتا ہوں، جنگ بندی کے موقع پر اقوامِ متحدہ کہاں تھی؟ جنگیں ختم کرانے پر اقوامِ متحدہ سے ایک فون کال بھی موصول نہیں ہوئی، اقوامِ متحدہ اپنی استعدادِ کار کے مطابق کام نہیں کر رہی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں اس وقت کئی بڑے مسائل ہیں، غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے، آپریشن کے دوران ایران کے ایٹمی اثاثے تباہ کیے، فلسطین کو تسلیم کرنا حماس کے لیے زبردست انعام ہے، جو لوگ امن چاہتے ہیں انہیں یرغمالیوں کی رہائی کی کوشش کرنی چاہیے، حماس نے امن کی مناسب پیش کشوں کو مسترد کیا، فلسطینی ریاست کا قیام حماس کے لیے اچھا ثابت ہو گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیں گے، میں نے اپنے 7 ماہ میں 7 جنگی رُکوائیں، کچھ جنگیں 3 دہائیوں سے جاری تھیں، ان جنگوں میں ہزاروں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں، ایسا کبھی کوئی ملک نہیں کر سکا جو میں نے کیا۔

انہوں نے دھمکی دی کہ روس نے معاہدہ نہ کیا تو روس پر محصولات عائد کریں گے، یورپ کو روس سے توانائی کی تمام خریداریاں فوری روک دینی چاہئیں، اس معاملے پر آج یورپی ممالک سے بات کروں گا، تمام ممالک سے مطالبہ ہے کہ بائیولوجیکل ہتھیار بنانا روک دیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ تمام ملکوں کا تعاون بائیولوجیکل ہتھیاروں کی روک تھام کی عالمی کوششوں میں معاون ہو گا، تاریکینِ وطن کا معاملہ ہمارے دور کا بڑا مسئلہ ہے، اقوامِ متحدہ اس بے قابو مسئلے کے لیے فنڈنگ کر رہی ہے، امریکا میں منشیات لانے والے غیر قانونی گروہوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی ہیں۔

فاروق اعظم صدیقی

متعلقہ مضامین

  •   روس کا پاک سعودی عرب دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • پاک بھارت جنگ سمیت7جنگیں رکوائیں، اقوام متحدہ میں اصلاحات کرنا چاہتا ہوں،ٹرمپ
  • پاک، سعودی دفاعی معاہدہ۔۔ ایک اور ایک گیارہ
  • اقوام متحدہ اجلاس؛ متعدد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیں گے؛ اسرائیل امریکا کا بائیکاٹ
  • اقوام متحدہ؛ 6 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیں گے؛ اسرائیل امریکا کا بائیکاٹ
  • برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نمائشی اقدام ہے: امریکا
  • امریکا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو نمائشی اقدام قرار دیا
  • کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
  • پاک سعودیہ دفاعی اتحاد کے بعد بھارت کیلئے پاکستان پر فوجی مہم جوئی کرنا انتہائی دشوار ہو گیا، مسعود خان