عمران خان اور بشریٰ بی بی کے حقِ زوجیت کیس پر عدالت کا نوٹس جاری
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک شہری کی درخواست پر دلچسپ پیش رفت ہوئی ہے جس میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان جیل میں حق زوجیت کی ادائیگی کے لیے تنہائی میں ملاقات کا مطالبہ کیا گیا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف کمشنر اسلام آباد، حکومت پنجاب، آئی جی جیل خانہ جات اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کرلی ہے۔
درخواست گزار شاہد یعقوب نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کا فالوور ہے اور سمجھتا ہے کہ جیل میں قید میاں بیوی کو آپس میں ملاقات کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس کے مطابق جیل حکام نے یہ بنیادی حق سلب کر رکھا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بھی خلاف ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کیس میں نہ تو عمران خان اور بشریٰ بی بی خود فریق ہیں اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف نے اس درخواست کو اپنی طرف سے آگے بڑھایا ہے بلکہ پارٹی نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق جیل میں قیدی اور اس کے شریک حیات کے درمیان ملاقات کے لیے ایک واضح طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت سپرنٹنڈنٹ جیل، ڈپٹی کمشنر اور پھر ٹرائل کورٹ تک درخواست دی جاسکتی ہے، اور اس کے بعد ہی ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس معاملے میں ایک عملی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اڈیالہ جیل میں فیملی روم کی سہولت موجود ہی نہیں، جو ایسی ملاقات کے انعقاد کے لیے لازمی قرار دی جاتی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ عدالت اس غیرمعمولی درخواست پر آئندہ سماعت میں کیا موقف اختیار کرتی ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: جیل میں
پڑھیں:
جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کا ویڈیو لنک ٹرائل ہائیکورٹ میں چیلنج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: جی ایچ کیو حملہ کیس میں ایک نئی پیش رفت سامنے آئی ہے جہاں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا نے ویڈیو لنک کے ذریعے چلنے والے ٹرائل کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلنج کر دیا ہے۔
سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کو شفاف ٹرائل فراہم کرنا لازمی ہے جب کہ واٹس ایپ یا کمزور ویڈیو لنک کے ذریعے کارروائی اس اصول کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار کے مطابق جیل ٹرائل کے دوران ملزم، وکلا اور خاندان سب موجود ہوتے ہیں اور براہِ راست مشاورت بھی ممکن ہوتی ہے، لیکن موجودہ طریقہ کار ملزم کے بنیادی حقوق سلب کر رہا ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ویڈیو لنک ٹرائل کو غیر قانونی و غیر آئینی قرار دیا جائے اور واٹس ایپ لنک کے تحت ہونے والی تمام کارروائی کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔
مزید مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شفاف ٹرائل کے لیے عمران خان کو جیل سے عدالت پیش کرنے کا حکم دیا جائے، کیونکہ نصف کارروائی پہلے ہی جیل میں مکمل ہو چکی ہے اور بقیہ بھی اسی انداز میں جاری رہنی چاہیے۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت میں پیشی کے دوران آواز اور تصویر دونوں غیر واضح تھے، جس کے باعث موکل سے بات ممکن نہ ہو سکی۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کے کمرے میں سب کے سامنے ہر بات نہیں کی جا سکتی اور اس عمل سے ملزم کی تیاری اور دفاع بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ٹرائل کھلی عدالت میں ہونا چاہیے جہاں ملزم گواہوں کو دیکھ سکے اور اپنے وکلا سے براہِ راست مشورہ کر سکے، لیکن موجودہ صورتحال میں عمران خان کو دانستہ طور پر کمرہ بند کرکے علیحدہ رکھا جا رہا ہے۔
سلمان اکرم راجا نے دو ٹوک کہا کہ موجودہ حالات میں وہ ٹرائل کا حصہ نہیں بنیں گے اور پہلے ہی عدالت میں اس کے خلاف درخواست جمع کر دی گئی ہے۔