پاکستان کا ہر شہری 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے، معاشی تھنک ٹینک کی رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
معاشی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ نے بڑھتے ہوئے قرضوں پر رپورٹ جاری کردی، جس کے مطابق پاکستان کا ہر شہری 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے، 10 سال قبل پاکستان کا ہر شہری 90 ہزار 47 روپے کا مقروض تھا، اس عرصے میں ہر شہری پر قرضہ دو گنا سے زائد بڑھ چکا ہے۔
اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر قرضوں بوجھ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، پاکستان کا ہر شہری 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 10 سال قبل پاکستان کا ہر شہری 90 ہزار 47 روپے کا مقروض تھا، پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں سالانہ اوسطاً 13 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کا قرضہ معیشت کے 70.
تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان ایک خطرناک قرض کے جال میں پھنس چکا ہے، بلند شرح سود کے باعث قرضوں پر سود کی ادائیگی معیشت کے7.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2020 سے روپے کی قدر میں 71 فیصد کمی کے باعث بیرونی قرضے مقامی کرنسی میں 88 فیصد بڑھ گئے ہیں، پاکستان کا قرضہ اپنے ہی فِسکل ریسپانسبلٹی ایکٹ کی مقررہ حد سے 10 فیصد زیادہ ہو چکا ہے،قرضوں کی ادائیگی تقریباً معیشت کے آٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
تھنک ٹینک نے رپورٹ میں مزید کہا کہ پہلے سے بوجھ تلے دبےعوام پر مزید ٹیکس لگانا کوئی حل نہیں ہے، ٹیکس نیٹ کووسیع کرنے اورشرح سود کو کم کرنےکی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پالیسی ریٹ کو 11 فیصد سے گھٹا کر 9 فیصدکیا جائے، حکومت کے قرضوں پر سودکی لاگت میں 12 کھرب روپے کی کمی آسکتی ہے، اس سے مالی گنجائش بڑھے گی اور کاروبار بھی زیادہ مسابقتی ہوں گے۔
تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان کو فوری طور پر مالی نظم و ضبط اپنانا ہوگا، حکومت کو قرض لینے کی لاگت کم کرنی ہوگی، بصورت دیگر ملک کو مزید سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس ترقیاتی اخراجات کے لیے مالی گنجائش نہیں ہے،بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری یا بحالی منصوبوں کے لیے مالی گنجائش نہ ہونےکے برابر رہ گئی ہے۔ Post Views: 1
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان کا ہر شہری روپے کا مقروض رپورٹ میں تھنک ٹینک کے مطابق کہا گیا گیا ہے
پڑھیں:
60 فیصد پاکستانیوں نے دوسری شادی کی مخالفت کر دی، گیلپ رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے نے پاکستانی معاشرے میں دوسری شادی کے بارے میں دلچسپ رجحانات کو بے نقاب کیا ہے۔
سروے کے مطابق ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس مسئلے پر تقسیم نظر آتا ہے، جہاں 40 فیصد پاکستانی دوسری شادی کے حق میں جبکہ 60 فیصد اس کے مخالف ہیں۔ مخالفین نے واضح طور پر کہا کہ کسی بھی صورت میں دوسری شادی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق دوسری شادی کے حامیوں نے بھی یہ حمایت غیر مشروط نہیں کی بلکہ اسے مالی استطاعت سے مشروط قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص کے پاس دونوں بیویوں کا خرچ اٹھانے اور انصاف سے پیش آنے کی اہلیت ہو تو دوسری شادی کی جا سکتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حمایت کرنے والوں میں مردوں کی شرح خواتین کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے — 50 فیصد مرد دوسری شادی کے حامی ہیں جبکہ خواتین میں یہ شرح 30 فیصد ہے۔
سروے میں یہ سوال بھی شامل تھا کہ کیا دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے درمیان انصاف ممکن ہے؟ اس کے جواب میں 72 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ ایسا کرنا “مشکل یا ناممکن” ہے۔ صرف 26 فیصد نے کہا کہ منصفانہ سلوک ممکن ہے۔ حیرت انگیز طور پر انصاف کو ناممکن قرار دینے والوں میں بھی 59 فیصد مرد شامل تھے۔
جب یہ پوچھا گیا کہ دوسری شادی کن حالات میں کرنی چاہیے تو 39 فیصد نے کہا کہ اگر پہلے بچے نہ ہوں تو دوسری شادی کی جا سکتی ہے، 15 فیصد نے دونوں بیویوں میں انصاف کرنے کی صلاحیت کو بنیادی شرط قرار دیا، جبکہ 10 فیصد نے کہا کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لازمی ہونی چاہیے۔ یہ نتائج پاکستانی معاشرے میں ازدواجی تعلقات، مذہبی تعبیرات اور سماجی روایات کے درمیان موجود تضادات کی عکاسی کرتے ہیں۔