امریکی مخالفت کے باوجود ایران اور روس کا 25 ارب ڈالر کا معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
تہران: ایران اور روس نے توانائی کے شعبے میں بڑا قدم اٹھاتے ہوئے 25 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت جنوبی ایران کے صوبے ہرمزگان میں چار نئے ایٹمی ری ایکٹرز تعمیر کیے جائیں گے۔
عالمی ممیڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے میں ہے کہ ایٹمی تنصیبات شہر سیرک میں 500 ہیکٹر رقبے پر قائم کی جائیں گی اور مجموعی طور پر 5 گیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھیں گی، منصوبے کی تعمیر روس کی سرکاری ایٹمی توانائی ایجنسی روس ایٹم (Rosatom) کے تعاون سے کی جائے گی۔
خیال رہےکہ فی الحال ایران کے پاس صرف ایک فعال ایٹمی بجلی گھر ہے جو جنوبی شہر بوشہر میں واقع ہے، یہ بھی روس ہی کی تعمیر کردہ ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت صرف 1 گیگاواٹ ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور گرمیوں کے دوران بجلی کی شدید قلت کے باعث ایران کئی برسوں سے نئے منصوبے شروع کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور تازہ معاہدہ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
واضح رہےکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایران پر دوبارہ عالمی پابندیاں عائد کرنے کے معاملے پر ووٹنگ کی تیاری کر رہی ہے، چین اور روس نے ایک قرارداد کی حمایت کی ہے جس کے ذریعے ان پابندیوں کے نفاذ میں کم از کم چھ ماہ کی تاخیر تجویز کی گئی ہے۔
ایران کے ساتھ توانائی اور عسکری شعبوں میں تعاون جاری رکھ کر روس نے ایک مرتبہ پھر امریکی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے، ماسکو اس سے پہلے بھی ایران کے ایٹمی مراکز پر امریکی اور اسرائیلی حملوں پر سخت ردعمل ظاہر کر چکا ہے، جون میں بھی ان حملوں میں ایران کے کئی حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد روس نے کھل کر ایران کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب امریکا اور اسرائیل نے بارہا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایران کے سول نیوکلئیر منصوبے دراصل فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کا مقصد صرف توانائی کی ضروریات پوری کرنا ہے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
وزارتِ خزانہ کا بجلی کے شعبے کے 1,225 ارب روپے کے گردشی قرضے کے مسئلے کا تاریخی حل
وزارتِ خزانہ نے بجلی کے شعبے میں 1,225 ارب روپے کے گردشی قرضے کے مسئلے کے کامیاب حل کا اعلان کر دیا ہے، جسے مالیاتی نظم و ضبط کے قیام اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کی جانب ایک فیصلہ کن پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق، اس تاریخی پیش رفت کی قیادت وزیرِاعظم کی پاور ٹاسک فورس نے کی، جس میں وزارتِ توانائی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور 18 شراکت دار بینکوں نے مشترکہ طور پر حصہ لیا۔
یہ سنگِ میل پاکستان کے توانائی کے شعبے کے ایک دیرینہ بحران کے حل کی جانب ایک غیر معمولی کامیابی کی علامت ہے۔
معاہدے کے تحت 660 ارب روپے کے موجودہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ (دوبارہ ترتیب) اور 565 ارب روپے کی نئی فنانسنگ شامل ہے، جس کے ذریعے پاور پروڈیوسرز کو واجب الادا ادائیگیاں کی جائیں گی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مالی بندوبست سے صارفین پر کسی نئے بوجھ کا اطلاق نہیں ہو گا، کیونکہ ادائیگیاں پہلے سے نافذ 3.23 روپے فی یونٹ سرچارج کے ذریعے کی جائیں گی۔
اس ڈھانچے کے ذریعے 660 ارب روپے کی حکومتی ضمانتیں بھی آزاد ہو جائیں گی، جس سے زرعی، چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs)، رہائش، تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں لیکویڈیٹی (سرمایہ کی دستیابی) کو فروغ ملے گا۔
وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے اس کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کن اقدام مالیاتی نظم و ضبط، سرمایہ کاری کے اعتماد اور توانائی کے شعبے کی پائیداری کی بحالی کی جانب ایک بڑی پیش رفت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی اجتماعی قیادت، مؤثر ادارہ جاتی ہم آہنگی، تکنیکی مہارت اور عوام و نجی شعبے کے مابین تعاون کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو پاکستان کے دیرینہ ساختی مسائل کے حل کے لیے ایک قابلِ تقلید ماڈل پیش کرتی ہے۔وزیرِ خزانہ نے مزید کہا کہ اس پیش رفت سے حکومت کے اس عزم کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ توانائی کے شعبے میں موجود پرانے رکاوٹوں کو ختم کیا جائے، اور مالیاتی استحکام کو اصلاحات کے ساتھ متوازن انداز میں آگے بڑھایا جائے۔
اشتہار