Daily Mumtaz:
2025-11-20@03:01:48 GMT

آئی ایم ایف نےبجلی چوری روکنے کا جامع پلان طلب

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

آئی ایم ایف نےبجلی چوری روکنے کا جامع پلان طلب

پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جاری دوسرے اقتصادی جائزہ مذاکرات میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جہاں آئی ایم ایف نے پاکستان سے توانائی کے شعبے میں مؤثر اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے نہ صرف گردشی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بہاؤ (اِن فلو) کو فوری طور پر روکنے کی ہدایت دی ہے بلکہ بجلی چوری اور نقصانات پر قابو پانے کا جامع اور قابلِ عمل منصوبہ بھی طلب کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فنڈ نے پاور پلانٹس کو دیے جانے والے’’کیپیسٹی چارجز‘‘ میں کمی کے لیے بھی تجاویز مانگی ہیں۔
پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ توانائی شعبے کے گردشی قرض کو مقررہ چھ سالہ مدت سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے کمرشل بینکوں سے 1225 ارب روپے کا قرض حاصل کرنے کا بندوبست کر لیا ہے۔
حکام کے مطابق اس قرض سے عام صارفین پر کسی قسم کا نیا مالی بوجھ نہیں پڑے گا، بلکہ ادائیگی پہلے سے نافذ شدہ 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج کے ذریعے کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، حکومت نے اضافی بجلی کو صنعتی شعبے اور کرپٹو مائننگ جیسے نئے مواقع میں استعمال کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے تاکہ مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی گورننس بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے متعلقہ اصلاحات کی رفتار تیز کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف نے

پڑھیں:

دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان

ملک پھر دہشت گردی کی زد میں ہے۔ دہشت گردوں نے اسلام آباد کو نشانہ بنایا ہے۔ اسلام آباد میں عدالت کے باہر پولیس گاڑی پر خودکش حملے میں 12 افراد شہید اور 27 زخمی ہوئے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل وانا کیڈٹ کالج دہشت گردوں کے نرغے میں آگیا۔کیڈٹ کالج کے طلبہ 14 سے زیادہ گھنٹے ان دہشت گردوں کے رحم وکرم پر رہے۔ سیکیورٹی فورسز نے تمام طلبہ اور اساتذہ کو بازیاب کیا۔ 2 سیکیورٹی اہلکار اس حملے میں شہید ہوئے۔ اس صدی کے 25 ویں سال پھر وانا سے لے کر اسلام آباد غیر محفوظ علاقہ بن گیا۔

اسلام آباد کے سیکیورٹی کے لیے لگائے گئے، اربوں روپے کی لاگت سے نصب ہونے والے کیمرے اور سیف سٹی پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اگرچہ وزیرداخلہ محسن نقوی نے یہ بیانیہ اختیارکر کے کچہری کے دروازے پر تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کی چابک دست سے خودکش حملہ اورکچہری میں قائم عدالتوں تک نہیں پہنچ سکا، اس بات کی دلیل دیتے ہوئے اپنی وزارت کے ماتحت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا دفاع کیا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ کسی خودکش حملہ آور کا اسلام آباد میں داخل ہونا ہی بہت بڑی ناکامی ہے۔

ادھر پشاور میں خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ایماء پر پختون قومی جرگہ منعقد ہوا۔ اس جرگے میں صوبے کے گورنر سمیت صوبے کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس جرگے کے اعلامیہ کے مندرجات یوں ہیں کہ وفاقی حکومت افغان خارجہ پالیسی کے پی حکومت کے مشورے سے بنائے۔ اس اعلامیے کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت اب اس بات پر متفق ہوگئی ہے کہ دو دہائیوں سے خیبر پختون خوا میں ہونے والی دہشت گردی ختم ہونی چاہیے۔ جرگے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پاکستان افغانستان سرحد کے تمام تجارتی راستوں کو کھولا جائے۔

یہ راستے گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان کے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں اور طالبان فوج کے جوابی حملوں کی بناء پر بند ہیں ، اگرچہ استنبول مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہے مگر اب طالبان حکومت اپنے تاجروں کو یہ ہدایات دے رہی ہے کہ افغان تاجر پاکستان سے تجارت کی امید ہی چھوڑ دیں اور اس مقصد کے لیے دیگر ممالک کی طرف رخ کریں۔ پشاور میں ہونے والے جرگہ کے اعلامیہ کے تجزیے سے قبل یہ تجزیہ ضروری ہے کہ ماضی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔

 اسلام آباد میں 20 دسمبر 2008 کو ایک خود کش حملہ آور نے گولہ بارود سے لیس ایک ڈمپر ایک ہوٹل کی دیوار سے ٹکرا دیا تھا۔ اس سانحے میں کم ازکم 54 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 266 کے قریب افراد جن میں سے بیشتر پاکستانی تھے، زخمی ہوئے۔ طالبان دہشت گردوں سے ہمدردی رکھنے والے بعض صحافیوں نے یہ مفروضہ گڑھ لیا تھا کہ متاثرہ ہوٹل میں امریکی موجود تھے ۔ ایسی خبروں کی تردید بھی ہوئی لیکن ان خبروں کی اشاعت کا مقصد یقیناً طالبان دہشت گردوں سے ہمدردی پیدا کرنا تھا۔ جب میاں نواز شریف دوبارہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے توکچھ عرصے بعد تحریک انصاف کے بانی نے حکومت کے خاتمے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا تھا تو 16 اگست 214 کو ظالم دہشت گردوں نے پشاور آرمی پبلک اسکول کے طالبہ کا قتل عام کیا تھا۔ اس سانحے میں 150 افراد جاں بحق ہوئے جن میں اسکول کی پرنسپل کے علاوہ 134 طلبہ بھی شامل تھے۔

عمران خان نے یہ دھرنا ختم کیا تو حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںکو مدعو کر کے ایک کانفرنس منعقد کی تھی، فوج کے سربراہ بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔ اس کانفرنس میں 20 نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے ہوا تھا، یہ ایک جامع پلان تھا۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں تھے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام،کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی، نفرت انگیز مواد پر پابندی، دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے سمیت مدارس کی اصلاحات، دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کی بندش، نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی کا قیام، قومی سلامتی کمیٹی کی تمام معاملات میں نگرانی وغیرہ شامل تھے مگر بعد میں حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایسے عناصر موجود تھے جو مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ نواز شریف حکومت پاناما لیکس کے اسکینڈل میں پھنس گئی تھی۔ نواز شریف حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ایک نئی انتہا پسند تنظیم بنوائی گئی،جس پرگزشتہ دنوں پابندی عائدکی گئی ہے۔

 تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آگئی۔ تحریک انصاف کے بانی ہمیشہ سے طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران تحریک انصاف کے جیالوں نے پشاور جانے والی موٹر وے پر دھرنا دے کر اتحادی افواج کی سپلائی لائن رکوا دی تھی۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری فخر سے اس کامیابی کا ذکرکرتی تھیں۔ بہرحال تحریک انصاف کو اسلام آباد میں حکومت مل گئی،کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے طالبان فوج کی کابل پر قبضہ کی بھرپور مدد کی تھی۔ بی بی سی اردو ویب سائٹ کی 16 اگست 2016 کو وائرل ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے یکساں نصاب کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کابل پر طالبان کے قبضے کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں لوگوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔

انھوں نے اپنی تقریر میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا تھا کہ غلام ذہن کبھی بھی بڑے کام نہیں کرسکتا۔ اس رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتوںنے طالبان کی کامیابی کا جشن منایا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں طالبان کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ ان طالبان نے سابقہ قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختون خوا کے کئی شہروں میں متوازی حکومتیں قائم کر لیں۔

کے پی میں مختلف شہروں میں عوام نے طالبان کے خلاف دھرنے دیے ، مگر وفاقی اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان جنگجوؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوام کی سرپرستی نہیں کی۔ اب کے پی کے عوام ایک طرف طالبان کے حملوں کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف حکومتی آپریشنزدیکھتے ہیں۔یہی وجوہات ہیں کہ کے پی کے عوام اس آپریشن کوکوئی آفت قرار دیتے ہیں۔ پشاورکے جرگہ کا یہ مطالبہ اہم ہے کہ افغانستان کے بارے میں پالیسی کی تیاری میں کے پی حکومت کا مشورہ شامل ہونا چاہیے مگر کے پی کی حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ طالبان جنگجوؤں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اگر اب ریاست نے واضح طے کرلیا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنا ہے تو پھر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  •  نبی کریم ؐ  کی سیرت انسانیت کیلئے جامع‘ قابل عمل نمونہ: وزیر مذہبی امور  
  • ٹائلز سیکٹر میں سالانہ 30ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری؛ایف بی آر کا کیمرے نصب کرنے کافیصلہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بار پھر پاک-بھارت جنگ روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کا دعویٰ
  • یوکرین جنگ روکنے کا خفیہ امریکی منصوبہ؛ روس مشاورت میں شامل
  • نو مسلم بھارتی خاتون کا پولیس پر شادی ختم کرنے کیلیے دباؤ ڈالنے کا الزام
  • دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان
  • گلشن اقبال میں سفید کاریں چوری کرنے والا گینگ سر گرم
  • کراچی:جوہر، گلشن اقبال میں سفید کاریں چوری کرنے والا گینگ سر گرم
  • وفاقی حکومت نے حالیہ تباہ کن سیلاب سے ہونے والے مالی نقصانات کی جامع رپورٹ جاری کر دی
  • وفاقی حکومت کا پری پیڈ میٹرنگ پراجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ