تاریخ کے ورق خون سے لکھے جاتے ہیں اور خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ فلسطین کی زمین 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے لہو میں نہائی کھڑی ہے۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 66 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 17 ہزار کے قریب زخمی ہیں۔ یہ محض اعداد نہیں، یہ انسانیت کے ضمیر پر لگے وہ داغ ہیں جو رہتی دنیا تک سوال بن کر بار بار ابھرتے رہیں گے۔

ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک منصوبہ لے کر آتے ہیں، جسے وہ امن کا جامع حل گردان رہے ہیں لیکن کیا امن اس خاموشی کا نام ہے جس میں بندوقیں سو جائیں یا اس صدا کا جو انصاف کو زبان دے کر دلوں میں گونجنے لگے؟

منصوبے کی تفصیلات سب کے سامنے ہیں: اسرائیلی فوج مرحلہ وار پیچھے ہٹے گی، یرغمالیوں اور لاشوں کا تبادلہ ہوگا، غزہ کو غیر مسلح علاقہ قرار دیا جائے گا اور ایک ٹیکنوکریٹ حکومت عالمی سرپرستی میں قائم ہوگی۔ امداد آئے گی، تعمیر نو ہوگی اور سرمایہ کاری کے لیے ایک خصوصی زون بنایا جائے گا۔

یہ سب بظاہر خوشنما لگتا ہے مگر تاریخ کی عدالت ہمیشہ یہ فیصلہ سناتی آئی ہے کہ طاقتور کو تحفظ دیا جاتا ہے اور کمزور کو صبر کی تلقین۔ اسی طرح فلسطینیوں سے ریاست کا وعدہ مؤخر ہے، جیسے کشمیریوں کو دہائیوں سے خوابوں اور قراردادوں کے حصار میں قید رکھا گیا ہے۔

فلسطین کے مسئلے پر ستمبر 2025 میں سعودی عرب اور فرانس نے ایک نیا رخ متعین کیا۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ان کی مشترکہ آواز نے یہ بتا دیا کہ اب وقت بدل رہا ہے۔ فرانس جیسے مغربی ملک کا فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا اس حقیقت کا اعلان ہے کہ یہ مسئلہ اب محض خطے کا نہیں، بلکہ عالمی ضمیر کا ہے۔

سعودی قیادت کا واضح موقف اور فرانس کا تعاون دنیا کو یہ باور کراتا ہے کہ امن کا مطلب صرف جنگ بندی نہیں بلکہ ریاست کا قیام ہے۔ یہ دونوں ملک گویا دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کے خون کی قیمت پر محض تعمیر نو نہ دی جائے بلکہ ان کا وطن دیا جائے۔

پاکستان بھی اس جدوجہد کی صفِ اول میں ہے۔ فلسطین ہو یا کشمیر، پاکستان نے ہر عالمی فورم پر یہ کہا ہے کہ ظلم کے مقابلے میں خاموشی امن نہیں بلکہ جبر ہے۔ پاکستانی قیادت نے فلسطین کے ساتھ اپنی وابستگی کو کشمیر کی کہانی کے ساتھ جوڑ کر دنیا کو سمجھایا ہے کہ دونوں مسائل ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔

جہاں طاقتور اپنے جبر کو قانون کا لبادہ پہناتا ہے، وہاں کمزور اپنی آزادی کے لیے نسلوں کی قربانی دیتا ہے۔ پاکستان کا یہ موقف اس منصوبے کی سب سے بڑی کمزوری کو بے نقاب کرتا ہے: انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں۔

مسلم دنیا کی اجتماعی آواز بھی کمزور نہیں رہی۔ مختلف ریاستوں نے اپنے اپنے انداز میں فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے اور عالمی رائے عامہ کو جھنجھوڑا ہے۔ یہ آواز ایک وحدت میں ڈھل جائے تو دنیا کو پیغام ملے گا کہ فلسطین کا مسئلہ امداد یا معیشت سے حل نہیں ہوگا بلکہ ریاست سے حل ہوگا۔ اور اگر یہ ریاست نہ دی گئی تو یہ جنگ بندی بھی ایک نئے دھماکے کی ہی تمہید ہوگی۔

اور مغرب کے عوام؟ وہ بھی اس کہانی کے ایک اہم کردار ہیں۔ لندن، پیرس، نیویارک، برلن، ان شہروں کی گلیوں میں لاکھوں لوگ فلسطینی پرچم تھام کر اپنی حکومتوں سے سوال کرتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ امن صرف اس وقت معتبر ہوگا جب انصاف کے ساتھ جڑا ہوگا۔ یہ مغربی عوام دراصل فلسطین کی زبان بن گئے ہیں اور ان کی آواز مغرب کے ایوانوں میں گونج بن کر پہنچتی رہی ہے۔

اب سوال یہی ہے کہ ٹرمپ پلان کو تاریخ کس نظر سے دیکھے گی؟ کیا یہ فلسطینیوں کو ان کا کھویا ہوا حق دے گا یا انہیں ایک بار پھر وقتی سکون کے وعدے پر چھوڑ دے گا؟ اگر امن تعمیرِ نو کے منصوبوں، بجلی اور پانی کی فراہمی، یا اقتصادی زون کے قیام تک محدود رہا تو یہ تاریخ کے ساتھ ایک اور مذاق ہوگا۔ لیکن اگر دنیا نے سعودی عرب اور فرانس کی حالیہ کاوشوں کو بنیاد بنا کر، پاکستان کی مستقل جدوجہد کو سہارا بنا کر، مسلم دنیا کی اجتماعی آواز کو متحد کر کے، اور مغربی عوام کی بیداری کو ساتھ ملا کر فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت بڑھایا، تو یہ تاریخ کا نیا باب ہوگا۔

تاریخ بڑی بے رحم ہے۔ وہ معاہدوں کے متن کو نہیں دیکھتی، وہ قوموں کی تقدیر کو دیکھتی ہے۔ اگر فلسطینوں کو اس بار بھی ان کا وطن نہ ملا تو یہ معاہدہ بھی ماضی کے کاغذوں میں دفن ہو جائے گا اور اگر انصاف اس کے مرکز میں رکھا گیا تو آنے والی نسلیں کہیں گی کہ یہی وہ لمحہ تھا جب دنیا نے امن کو سودا نہیں بلکہ تاریخ کا فیصلہ بنایا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امن معاہدہ ٹرمپ پلان غزہ فلسطین فلسطینی ریاست.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امن معاہدہ ٹرمپ پلان فلسطین فلسطینی ریاست دنیا کو کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض دو ممالک کے درمیان ایک سفارتی رشتہ نہیں بلکہ خطے کی سیاست، سلامتی اور امتِ مسلمہ کی اجتماعی قوت کا مظہر ہیں۔ 7 دہائیوں سے زائد پر محیط یہ رشتہ وقت کے ہر امتحان میں مزید مضبوط ہوا ہے۔

حال ہی میں سعودی صحافی عبد اللہ المدیفر نے اپنے معروف پروگرام (فی الصوره) میں سعودی عرب کے سینیئر رہنما شاہ فیصل کے بیٹے شہزادہ ترکی الفیصل کا انٹرویو کیا، جو اس تعلق کی گہرائی اور مستقبل کے امکانات کو سمجھنے کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔

عبد اللہ المدیفر سعودی عرب کے نمایاں صحافی ہیں، جو اپنے بے لاگ سوالات اور گہرے تجزیاتی انداز کے باعث سعودی میڈیا میں ایک معتبر حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا پروگرام (فی الصوره) محض ایک انٹرویو شو نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے سعودی عرب میں ریاستی مکالمے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی پروگرام میں شہزادہ ترکی الفیصل جیسے رہنما کی گفتگو براہِ راست خطے کی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔

شہزادہ ترکی الفیصل سعودی عرب کی قومی سلامتی کے ایک اہم ستون رہے ہیں۔ وہ برسوں تک مملکت کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ رہے اور عالمی سطح پر ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان کا پس منظر انہیں صرف ایک سابق عہدے دار نہیں بلکہ ایک دانشور اور عالمی تجزیہ کار بھی بناتا ہے، جن کی بصیرت خطے کے مستقبل پر روشنی ڈالتی ہے۔

انٹرویو میں جب پاکستان کا ذکر آیا تو شہزادہ ترکی الفیصل نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض رسمی نہیں بلکہ قدرتی قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی اہم تنصیبات کا دورہ کیا تھا، اور اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی موجود تھے۔ سعودی عرب نے اس دور میں پاکستان کی مالی اور عسکری مدد کی، مگر کبھی اس پر کوئی شرط عائد نہ کی۔ ہو سکتا ہے پاکستان نے اس تعاون کو اپنی تحقیق اور دفاعی صلاحیت کو جلا بخشنے میں استعمال کیا ہو۔ یہ پہلو دونوں ملکوں کے درمیان بے لوث اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے ماضی کی ان یادوں کے ساتھ ساتھ عسکری تعاون کی تفصیلات بھی بتائیں کہ کس طرح پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب کے مختلف علاقوں، بالخصوص تبوک اور خمیس مشیط میں تعینات ہوئے، جب کہ سعودی عرب نے پاکستان کو مادی وسائل فراہم کیے۔ یہ تعاون صرف فوجی سطح پر نہ تھا بلکہ بھائی چارے اور یکجہتی کی بنیاد پر پروان چڑھا۔

پاکستان کے کردار کو شہزادہ ترکی الفیصل نے ایک قدرتی حلیف کے طور پر اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آزادی کے فوراً بعد سے سعودی عرب کے قریب رہا ہے، اور خطے کے توازنِ قوت میں اس کا کردار فیصلہ کن ہے۔ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم فوجی طاقت ہے اور واحد اسلامی جوہری ملک بھی، اس لیے اس کا اتحادی بننا محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے۔

انٹرویو میں اسلامی اتحاد کا حوالہ بھی آیا، جو سعودی عرب نے دہشتگردی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے اس امکان کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ اتحاد صرف دہشتگردی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر خطروں کے مقابلے میں بھی ایک اجتماعی قوت بنے گا۔ یہ سوچ ایک وسیع تر اسلامی نیٹو کی جھلک دیتی ہے۔

انٹرویو کا اہم ترین حصہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ تھا، جس میں نیٹو معاہدے کی پانچویں شق جیسے اصول کو شامل کیا گیا ہے۔ یعنی اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض دوستانہ سطح سے بڑھا کر باقاعدہ دفاعی ڈھانچے میں ڈھالتا ہے۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیل کے جارحانہ رویے کو بھی خطے کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل اپنے آپ کو خطے کی سب سے بڑی طاقت ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے اجتماعی قوت اختیار کرنا ناگزیر ہے، اور پاکستان و سعودی عرب کا حالیہ معاہدہ اسی اجتماعی حکمتِ عملی کی ایک بڑی کڑی ہے۔

یوں عبد اللہ المدیفر کے پروگرام میں ہونے والی یہ گفتگو نہ صرف ماضی کے سنہرے ابواب یاد دلاتی ہے بلکہ مستقبل کی سمت بھی واضح کرتی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ اب سفارت کاری کی رسمی حدوں سے نکل کر خطے کی سلامتی، امت کی اجتماعی طاقت اور توازنِ قوت کا ضامن بن چکا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

طلحہ الکشمیری

متعلقہ مضامین

  • پابندیوں کی بحالی کا مطلب ایران کیساتھ سفارتکاری کا خاتمہ نہیں، فرانس
  • اسرائیل ناجائز ریاست ہے پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا، حاجی حنیف طیب
  • لاہور، فلسطین کے مظلوم عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے طلبہ ریلی
  • حماس نے دنیا کو فلسطین کو تسلیم کرنے پر قائل کردیا، ڈاکٹر واسع شاکر
  • وزیراعظم شہباز شریف کیجانب سے قاتل ٹرمپ کے غزہ پلان کی حمایت مسترد کرتے ہیں، غلام حسین جعفری
  • غزہ ، صدر ٹرمپ پلان
  • صمود فلوٹیلا دنیا میں مزاحمت کی ایک بہت بڑی علامت بن گیا: حافظ نعیم الرحمان
  • پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
  • فلسطین: جنرل اسمبلی سے ٹرمپ منصوبے تک
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ یا امت ِ مسلمہ کے خلاف سازش؟